آغا باقر علی موسوی کہنے کو ایک فرد تھا لیکن حقیقت میں پشاور کی صحافت کے ایک عہد کا نام تھا جو گذشتہ روز کسمپرسی کی چادر اوڑھے اس دار فانی سے کوچ کرگیا۔
میں ان صحافیوں میں سے ایک ہوں جس نے باقر موسوی کا عروج بھی دیکھا اور زوال۔ باقر موسوی کے عروج میں ان کا دبدبہ دیدنی تھا۔ جب وہ بہت سوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے البتہ مجھے یہ اعزاز حاصل تھا کہ باقر موسوی مجھ سے اچھی علیک سلیک رکھتے تھے کیونکہ ان کی طرح میرا تعلق بھی پشاور کے اندرون شہر سے تھا۔
باقر کے ساتھ ایک ہمسائیگی والی بات تھی۔ باقر اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے ایک عالم کے فرزند تھے۔ اس وجہ سے علاقے میں ان کی عزت تھی۔ باقر موسوی کو قابلیت باپ کی طرف سے ورثے میں ملی۔ وہ بلا کے صحافی تھے۔ بائیں ہاتھ سے لکھی گئی ان کی خبر خوش خط بھی ہوا کرتی تھی اور ’ٹو دی پوائنٹ‘ بھی۔ ان کی تمام زندگی پرنٹ صحافت کے گرد گھومتی رہی ہے۔
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ باقر موسوی کی بہت ساری خبروں کی میں نے ایڈیٹنگ کی۔ چونکہ ایڈیٹنگ کے علاوہ کوئی اور لفظ نہیں تھا اس لیے یہ لفظ استعمال کیا ورنہ اصل میں تو باقر کی خبر عام طور پر صاحبِ ڈیسک صرف پڑھا ہی کرتے اور ان کا کام محض سرخی (ہیڈلائن) نکالنا ہوتا تھا۔ اس لیے میں بھی خود کو باقر موسوی کی بنی خبروں کا ناظر ہی سمجھتا ہوں۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی باقر کی خبر میں ایڈیٹنگ کی ہو کیونکہ وہ اپنی خبر میں اصلاح کی گنجائش نہیں چھوڑتے تھے۔
یہاں بر سبیل تذکرہ 1995 کا واقعہ پیش ہے۔ میں روزنامہ کسوٹی کا بین الاقوامی صفحہ بنایا کرتا تھا۔ ہمارے ایڈیٹر صلاح الدین صاحب کے پاکستان میں اس وقت غالباً ترکی کے سفیر سے قریبی مراسم تھے۔ اس ملک کے قومی دن منانے کی تقریب کی خبر درکار تھی۔ میں نے کئی اصحاب سے خبر بنانے کو کہا لیکن کامیابی نہ ملی۔ ایڈیٹر سے پھر رابطہ کیا تو انہوں نےکہا کہ باقر موسوی سے خبر بنوا لو۔ باقر نے دو منٹ میں خبر بنا دی۔ یہ خبر ایسی جامع تھی جیسے باقر خود اس تقریب سے ابھی اٹھ کر آئے ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر سازی پر تو باقر موسوی کو پوری دسترس حاصل تھی۔ شاید کوئی اسے معیوب جانے لیکن یہ ان کا فن خبریت ہی تھا کہ صوبے میں پیر صابر شاہ کی حکومت ساڑھے تین ماہ میں ختم ہوگئی۔ باقر موسوی نے خود اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت لانے کے لیے انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
باقر موسوی کٹر جیالے تھے اور آخر وقت تک جیالے ہی رہے۔ اگرچہ زوال کی کسمپرسی میں ان کے جذبات کسی قدر سرد ضرور ہوئے لیکن وہ اس جہاں سے گئے تو کامریڈ ہی تھے۔
باقر موسوی نے جنرل ضیا الحق کے دور میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی تحریک میں نظریاتی صحافی کی حیثیت سے حصہ لیا اور پی ایف یو جے کے قائدین کے ساتھ جیل بھی کاٹی۔ فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر احفاظ الرحمن (مرحوم) نے مجھے بتایا تھا کہ گرفتار کیے جانے والے صحافیوں میں باقر موسوی سب سے کم عمر تھے اور انہوں نے عمر میں چھوٹے ہونے کے ناطے جیل میں ان کی بہت خدمت کی۔
باقر موسوی ہمیشہ بڑے فخر کے ساتھ اپنے جیل جانے کا ذکر کیا کرتے تھے۔ یہ فخر ہی تھا کہ باقر موسوی سے میری آخری ملاقات، جو 8 جنوری کو پشاور پریس کلب میں ہوئی، کے دوران انہوں نے مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں بلامقابلہ خیبر یونین آف جرنلسٹس کا صدر بنا دیں۔
باقر کو شاید پتہ تھا کہ اس کے پاس وقت کم ہے اسی لیے وہ انتخابات کے اعلان سے پہلے ہی عدم آباد چلے گئے، جس کے ساتھ ہی صحافت کا عہد موسوی تمام ہوا۔ اللہ باقر علی موسوی کی مغفرت فرمائے۔ آمین!