اسرائیل کے وزیر خارجہ یائر لیپیڈ نے حماس کی جانب سے کشیدگی روکے جانے کے بدلے میں غزہ میں حالات زندگی بہتر بنانے کی تجویز دی ہے، جس کا مقصد ’تشدد کے کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے‘ کو روکنا ہے کیونکہ دونوں فریقوں میں گذشتہ ہفتے کے آخر میں دوبارہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لیپیڈ نے بتایا کہ اس منصوبے، جس میں بنیادی ڈھانچے اور روزگار کے فوائد شامل ہیں، کا مقصد فلسطینیوں کو یہ دکھانا ہے کہ یہ حماس کی اسرائیل کے خلاف پُر تشدد مہم ہی ہے، جس کی وجہ سے وہ ’غربت، قلت، تشدد اور بے روزگاری کے حالات میں بغیر کسی امید کے رہ رہے ہیں۔‘
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ حماس کے ساتھ مذاکرات کا مطالبہ نہیں کر رہے، کیونکہ ’اسرائیل ان دہشت گرد تنظیموں سے بات نہیں کرتا جو ہمیں تباہ کرنا چاہتی ہیں۔‘
لیپیڈ، جنہوں نے دو سالوں میں بطور وزیراعظم عہدہ سنبھالنا ہے، نے تسلیم کیا کہ ان کا منصوبہ ابھی تک اسرائیل کی آٹھ جماعتی مخلوط حکومت میں سرکاری پالیسی کے مطابق نہیں ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اسے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کی حمایت حاصل ہے۔
ہرتزیلیا کی ریخ مین یونیورسٹی میں ایک تقریر کے دوران لیپیڈ نے کہا کہ منصوبے کے پہلے مرحلے میں، غزہ میں بنیادی ڈھانچے کو انتہائی ضروری اپ گریڈ ملے گا۔
انہوں نے کہا: ’بجلی کے نظام کی مرمت کی جائے گی، گیس فراہم کی جائے گی، پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ لگایا جائے گا، صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں نمایاں بہتری آئے گی اور رہائش اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کی دوبارہ تعمیر کی جائے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بدلے میں ’حماس طویل مدتی خاموشی اختیار کرے گی۔‘
لیپیڈ نے کہا: ’یہ ہمارے مصری شراکت داروں کی حمایت اور شمولیت کے بغیر اور تمام فریقوں سے بات کرنے کی صلاحیت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے خبردار کیا کہ حماس کی طرف سے کسی بھی قسم کی خلاف ورزی اس عمل کو روک دے گی۔
منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر پہلا مرحلہ آسانی سے چلتا ہے تو غزہ کے ساحل سے دور ایک مصنوعی جزیرے اور پھر بندرگاہ کی تعمیر ہوگی اور غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان ایک ’ٹرانسپورٹ لنک‘ بنایا جائے گا۔
لیپیڈ نے کہا کہ انہوں نے یہ منصوبہ ’عرب دنیا میں شراکت داروں‘ کے ساتھ ساتھ امریکہ، روس اور یورپی یونین کو بھی پیش کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’ابھی بھی کام کرنا باقی ہے، ہم ابھی بھی ڈرائنگ بورڈ پر ہیں، لیکن اگر اس منصوبے کو کامیابی ملے اور وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہو تو میں اسے سرکاری منظوری کے لیے تجویز کروں گا۔‘
تاہم وزیر خارجہ لیپیڈ کے اس بیان کے چند گھنٹوں کے بعد ہی تشدد کی ایک نئی لہر دیکھنے کو ملی، جب اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے غزہ سے جنوبی اسرائیل کی جانب داغے گئے ایک راکٹ کو مار گرایا ہے۔ یہ حالیہ دنوں میں تیسرا ایسا واقعہ ہے۔
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ پیر کی رات اسرائیل نے جوابی کارروائی کی اور اس کے لڑاکا طیاروں نے حماس کے چار فوجی کمپاؤنڈز اور فلسطینی علاقے میں ایک سرنگ کو نشانہ بنایا۔
غزہ میں اے ایف پی کی ٹیم کے مطابق اس واقعے میں کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان آخری مرتبہ شدید کشیدگی رواں برس مئی میں دیکھنے میں آئی تھی جوکہ 2008 کے بعد سے کشیدگی کا چوتھا دور تھا۔ یہ تنازعہ مصر کی جانب سے مصالحتی کوششوں کے بعد ختم ہوا تھا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے مئی کے آخر میں کہا تھا کہ اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں ’بنیادی شہری ڈھانچے کی وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔‘