خیبر پختونخوا میں خواتین کے لیے الگ جیل بنانے کی تجویز سامنے آنے کے بعد وزیراعلیٰ محمود خان کے معاون خصوصی برائے جیل خانہ جات شفیع اللہ پرامید ہیں کہ وزیر اعلیٰ اس تجویز کو منظور کرلیں گے۔
شفیع اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس تجویز کے تحت پشاور میں خواتین کے لیے ایک ایسی جیل بنائی جائے گی، جس میں ’بینگکاک رولز‘ کے مطابق تمام ضروریات و سہولیات ہوں گی۔
تاہم اس تجویز کے مخالفین کہتے ہیں کہ خواتین کو پشاور میں ایک نئی جیل بنا کر اس میں رکھنے کی بجائے انہیں آبائی علاقوں کے قریب جیلوں میں رکھا جائے تاکہ انہیں اپنے اہل خانہ سے ملنے میں آسانی ہو۔
شفیع اللہ نے بتایا کہ وہ صوابی سے لے کر قبائلی وجنوبی اضلاع اور چترال تک تمام جیلوں کا دورہ کرنے اور وہاں خواتین قیدیوں کا حال احوال پوچھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خواتین کے لیے فی الحال کم از کم پشاور میں ایک الگ جیل ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس معاملے پر ان کی وزیراعلیٰ سے آئندہ کچھ دنوں میں ملاقات متوقع ہے۔ ’اگر اس تجویز کو منظور کرلیا گیا تو یہ خیبر پختونخوا کی تاریخ میں خواتین کی پہلی الگ جیل ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’خواتین کو باپردہ اور محفوظ ماحول فراہم کرنا پشتون روایات کا حصہ ہے۔ اگرچہ موجودہ جیلوں میں بھی کوئی ایسا مسئلہ نہیں لیکن خواتین قیدیوں کے لیے جگہ ناکافی ہے۔ الگ جیل بنانے سے بہت بڑا فرق آسکتا ہے۔‘
معاون خصوصی نے بتایا کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو بعد میں دیگر اضلاع میں بھی الگ جیل بنائی جاسکتی ہیں۔
تاہم خیبر پختونخوا کے سابق ہوم سیکریٹری و اے آئی جی پولیس سید اختر علی شاہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ خواتین قیدیوں کا بڑا مسئلہ پیشیاں اور اہل خانہ سے ملاقات کا ہوتا ہے، لہٰذا پشاور میں الگ جیل بنانے سے پشاور کی خواتین کو تو فائدہ ہوسکتا ہے لیکن دور دراز کی خواتین کو نہیں۔
’بڑی بات یہ ہوگی کہ خواتین کو ان کے گھر کے قریب ترین جیلوں میں رکھا جائے۔ ایک جیل کی عمارت عام عمارت نہیں ہوتی، اس پر اربوں روپیہ خرچ ہوتا ہے۔‘
اختر علی شاہ نے تجویز دی کہ خواتین قیدیوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی، لہٰذا نئی جیل بنانے کی بجائے ان کی موجودہ حالت زار میں بہتری لائے جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
بقول اختر علی شاہ: ’ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ہر ضلعے میں خواتین قیدیوں کے لیے الگ کمپاؤنڈ بنائے جائیں۔ جیلوں میں خواتین افسروں اور عملے کی کمی ہے اس کو بھی پورا کیا جائے۔‘
سابق اے آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ پشاور سینٹرل جیل میں نئی تعمیرات کے بعد وہاں قیدیوں کی جگہ کم پڑ جانے کا مسئلہ ختم ہوگیا ہے، لہٰذا وہاں کافی گنجائش ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پشاور سینٹرل جیل میں جب سے انگریز دور کی قدیم عمارت کو گرا کر نئی تعمیرات ہوئی ہیں، خواتین قیدیوں کے لیے جگہ انتہائی کم پڑ گئی ہے۔ نتیجتاً اب قیدیوں کو صرف جیل کے اندر سمانے پر ہی توجہ دی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق: انگریز دور کی قدیم عمارت میں خواتین کے لیے علیحدہ ایک بہت بڑی اور کشادہ جگہ تھی اور جس میں موسموں کے تغیر سے بچنے کا انتظام بھی تھا۔ پرانی عمارت میں ایک کچن اور چھوٹا ہسپتال بھی تھا۔ اب تمام صوبے سے سینٹرل جیل منتقل ہونے والی قیدی خواتین ایک ہی بیرک کے اندر رہتی ہیں۔ ان میں سے بعض خواتین کے ساتھ شیر خوار اور کم سن بچے بھی ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی وزارت کی ’پاکستانی جیلوں میں خواتین کی حالت زار‘ کی ایک حالیہ رپورٹ میں ملک کی تمام جیلوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے، جس کا مقصد خواتین قیدیوں کی جیلوں میں حالت زار کو بہتر بنانا اور انہیں انصاف کی فوری فراہمی یقینی بنانا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پشاور سینٹرل جیل میں کل 166خواتین قیدیوں میں سے 66 کا تعلق دور دراز کے اضلاع سے ہے۔ ان میں سے 29 ماؤں کے ساتھ ان کے 38 بچے بھی ہیں۔
’بینگکاک رولز‘ سے کیا مراد ہے؟
بینگکاک رولز کا دوسرا نام ’اقوام متحدہ کے اصول برائے حقوقِ خواتین قیدی‘ ہے۔ 70 نکات پر مبنی یہ خواتین قیدیوں کے حقوق پر دنیا کا پہلا مسودہ ہے، جو دسمبر 2010 میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد رکن ممالک کو ان سے رہنمائی حاصل کرنے پر زور دیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چونکہ جیلوں میں ہمیشہ مردوں کی نسبت خواتین قیدیوں کی تعداد کم رہی ہے اس لیے بیشتر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی جیلوں کی عمارتیں اور ماحول خواتین قیدیوں کے لیے زیادہ سازگار نہیں رہا۔
بینگکاک رولز پالیسی سازوں کو تجویز کرتا ہے کہ خواتین قیدیوں کی تعداد کم سے کم رکھیں۔ انہیں اپنےآبائی علاقوں سے دور جیلوں میں نہ رکھا جائے تاکہ ان کا اپنے اہل خانہ سے رابطہ آسان رہے اور ان کی تمام بنیادی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔
اگرچہ بینگکاک رولز ایک جامع مسودہ ہے، جس میں خواتین قیدیوں کی جیلوں میں ضروریات، صحت اور تحفظ پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن اب بھی مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق پاکستانی جیلوں میں بینگکاک رولز یا ’پاکستان پرزن رولز‘ پر من وعن عمل نہیں کیا جاتا۔
ان ہی وجوہات کے تحت صوبہ پنجاب میں ایک اور صوبہ سندھ میں بہت پہلے خواتین کی چار الگ جیلیں بنائی گئیں، تاہم صوبہ خیبرپختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں ابھی تک خواتین کے لیے مخصوص جیل نہیں بنی۔