وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بدھ کے روز لاہور کا دورہ کیا جہاں انہوں نے صوبے میں گورننس بہتر کرنے کے لیے اجلاس کی صدارت بھی کی۔
پنجاب کے حال ہی میں تعینات کیے جانے والے چیف سیکرٹری پنجاب نے ان کے سامنے صوبے میں بڑھتے ہوئے مسائل اور ان کے حل کا فارمولا پیش کیا۔
ان کی جانب سے بتایا گیا کہ صوبے میں کرپشن، نچلی سطح پر مہنگائی کنٹرول کرنے کا موثر کردار ادا نہیں کیا جارہا۔
افسران میں نیب کارروائیوں کا بھی خوف موجود ہے اور ان کے بار بار تبادلے بھی شکایت کے ازالے میں بڑی رکاوٹ ہیں جب کہ مقامی حکومتیں غیر فعال ہیں۔
پنجاب حکومت کے مطابق وزیراعظم کو پیش کیے گئے فارمولا پر پہلے بھی غور کیا جاتا رہا ہے تاہم اس بار وزیراعظم نے تمام خامیوں پر فوری قابو پا کر عوامی اور انتظامی مسائل فوری حل کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس پر عمل درآمد کے لیے وزیر اعلی اور وزرا نے حکمت عملی تیار کرنا شروع کر دی ہے۔
چیف سیکرٹری کی تجاویز کیا ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز کی دستاویزات کےمطابق انہوں نے کئی مسائل کی نشاندہی کی۔
وزیراعظم کو پیش کی گئی بریفنگ میں بتایاگیا کہ صوبے میں سب سے زیادہ شکایات کرپشن کی ہیں اداروں میں لوگوں کی شکایات کے ازالے میں بلاوجہ تاخیر ہورہی ہے۔
چیف سیکرٹری کے مطابق سرکاری افسران بار بار تبادلوں سے بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور بیشتر دلچسپی یا ذمہ داری سے کام نہیں کرتے۔
انہوں نے وزیراعظم کو بتایا کہ افسران میں ابھی تک نیب کی کارروائیوں کا خوف موجود ہے جو ان کی کارکردگی میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
محکموں میں کام کرنے کے لیے افسران کی موثر ٹیمیں نہیں بن رہیں جو مسائل پر فوری قابو پانے میں کردار ادا کر سکیں۔
چیف سیکرٹری نے بریفنگ دی کہ نچلی سطح پر پرائس کنٹرول کرنے کا کوئی مربوط نظام نہیں ہے جو مارکیٹوں میں ناجائزمنافع خوری کو قابو کر کے اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھے۔
لوگوں کی مسائل حل کرانے یا نچلی سطح کے عملے کی شکایات کے لیے اعلی سطحی انتظامیہ تک رسائی نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ مقامی حکومتوں کو کام سے روکنے کے باعث بھی عوامی سطح پر مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔
فنڈز کی کمی بھی لوگوں کی شکایت کے بروقت ازالے میں رکاوٹ ہیں جس سے غیر ضروری تاخیر دیکھنے میں آرہیہے۔
حکومتی حکمت عملی؟
صوبائی وزیر پنجاب سید یاور بخاری نے اس معاملہ پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’چیف سیکرٹری کی جانب سے جو بریفنگ وزیر اعظم کو پیش کی گئی اس کی روشنی میں انہوں نے وزیر اعلی پنجاب اور پوری کابینہ کو حکم دیا ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے اور گڈ گورننس کے لیے موثر حکمت عملی بنائی جائے۔‘
یاور بخاری کے بقول ’اس معاملہ پر پنجاب حکومت نے پیچیدہ مسائل کے علاوہ دیگر تمام معاملات پر فوری قابو پانے کافیصلہ کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نچلی سطح پر نظام میں بہتری کے لیے خاص طور پر مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی جارہی ہیں۔ پہلےمجسٹریسی نظام تھا جس کے زریعے ایسے مسائل پیدا نہیں ہوتے تھے مگر سابق حکومتوں نے وہ نظام تباہ کیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کرپشن کے خاتمہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور نہ پہلے کیا گیا ہے اس کے لیے مانیٹرنگ کانظام سخت کیا جا رہا ہے۔‘
یاور بخاری نے کہا کہ ’یہ بات درست ہے بار بار تبادلوں سے افسران میں عدم اعتماد پایا جاتا ہے مگر جو کام ٹھیک نہیں کرے اسے ہٹانا بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اسی لیے وزیراعلی پنجاب نے خود اداروں کی چیکنگ اور اچانک دوروں کا فیصلہ کیا ہے تاکہ جہاں کام بہتر نہ ہو وہاں فوری طور پر کارروائی جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وزیراعلی عثمان بزدار نے جمعرات کو سیالکوٹ کا دورہ کر کے ایکسائز، ریونیو اور جیل کا دورہ کیا اور وہاں انتظامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور بہتری کی فوری ہدایات جاری کیں۔‘
یاور بخاری کے مطابق ’تمام وزرا کو اپنے محکموں میں عوام کے مسائل اور شکایات فوری حل کرنے کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور آئندہ چند دن میں گورننس کے حوالے سے مزید بہتری دکھائی دے گی۔ کیونکہ وزیراعظم نے سخت ہدایات جاری کی ہیں کہ گڈ گورننس سے متعلق وزرا اپنی کارکردگی سے متعلق مکمل جواب دہ ہوں گے۔‘
واضح رہے کہ حکمران جماعت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے گورننس بہتر نہ ہونے کی شکایات بڑھتی جارہی ہیں۔
دوسری جانب مہنگائی اور کرپشن سے متعلق حکومت نے کئی بار دعوے کیے لیکن چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب سمیت ضلعی افسران کے تبادلوں سے نظام بہتر کرنے کی کوشش کے علاوہ کوئی بہتری دکھائی نہیں دی۔