پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ برطانیہ نے پاکستان کو ریڈ لسٹ سے ہٹا دیا ہے۔
برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر نے یہ اعلان ایک ٹویٹ کے ذریعے کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ پاکستان اب ریڈ لسٹ کا حصہ نہیں۔‘
Pleased to confirm is off the red list. I know how difficult the last 5 months were for so many who rely on close links between & Grateful to @fslsltn @Asad_Umar & superb @nhsrcofficial @OfficialNcoc @NIH_Pakistan @drsafdar64 team for their close collaboration.
— Christian Turner (@CTurnerFCDO) September 17, 2021
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید لکھا کہ ’مجھے معلوم ہے کہ گذشتہ پانچ ماہ ان لوگوں کے لیے کتنے مشکل تھے جو برطانیہ اور پاکستان کے قریبی تعلقات پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘
کرسچن ٹرنر نے پاکستانی محکمہ صحت سمیت این سی او سی کے سربراہ اسد عمر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا: ’میں ان کے قریبی تعاون پر ان کا شکرگزار ہوں۔‘
ریڈ لسٹ میں شمولیت کے اثرات
برطانیہ نے پاکستان، کینیا، بنگلہ دیش اور فلپائن کو رواں برس اپریل کے مہینے میں اپنی ’ریڈ لسٹ‘ میں شامل کر لیا تھا جس کے مطابق ان ممالک سے برطانیہ آنے والے ہر شخص کے لیے ہوٹل میں 11روزہ قرنطینہ ضروری ہو گیا تھا۔
پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر کرسچین ٹرنر نے برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو سفری پابندیوں کی ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کیا تھا تاہم اب انہوں نے ہی اس لشٹ سے ہٹائے جانے کی بھی خوشخبری سنائی ہے۔
برطانوی حکومت کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ فیصلہ ویکسینیشن پروگرام کے اس نازک مرحلے پر ان چاروں ممالک سے آنے والے افراد سے ملک کو کرونا کی نئی اقسام سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ’برطانیہ میں اب تک تین کروڑ سے زیادہ ویکسین خوراکوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اضافی پابندیوں سے نئی اقسام کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملے گی، جیسے جنوبی افریقہ اور برازیل میں وائرس کی نئی اقسام کو شناخت کیا گیا تھا۔‘
بیان میں کہا گیاتھا کہ ’صرف برطانوی اور آئرش شہریوں یا برطانیہ میں رہائشی حقوق کے حامل افراد (بشمول طویل مدتی ویزا رکھنے والوں) کو داخلے کی اجازت ہوگی اور انہیں لازمی طور پر 10 دن تک حکومت سے منظور شدہ قرنطینہ مرکز میں رہنا پڑے گا۔ ایسے افراد کو بھی مختص پورٹ پر ہی آنا ہوگا۔‘