’تقسیم ہند کے وقت کراچی انتہائی خوبصورت اور صاف شہر ہوتا تھا، اس لیے بہت سے گجراتی یہاں آئے۔ اس وقت کراچی میں گجراتی مارکیٹ کی زبان ہونے ساتھ اتنی بڑی سطح پر بولی جاتی تھی، جیسے آج اردو زبان بولی جاتی ہے۔‘
یہ کہنا تھا سید عبدالرحمن کا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کاٹھیاواڑ گجراتی بچاؤ تحریک کے رہنما سید عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ’تقسیم ہند کے بعد مغربی بھارت کی ریاست گجرات سے گجراتی بولنے والی جماعت کاٹھیاواڑ سے کراچی آئی تھی۔ سندھ میں گجراتی زبان بولنے والوں کی 55 سے 60 لاکھ کی آبادی ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس وقت کراچی سے گجراتی زبان کے تین بڑے اخبارات روزنامہ وطن، روزنامہ ڈان اور روزنامی ملت چھپتے تھے۔ آج بھی کراچی سے گجراتی زبان کے دو اخبار نکلتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بہت کم لوگ اب گجراتی کے اخبار پڑھتے ہیں، مگر پھر بھی اخبار کا اجرا ہوتا ہے۔‘
سید عبدالرحمان کہتے ہیں ’آج بھی کراچی میں گجراتی زبان بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے، گجراتی کھانے اور گجراتی ثقافت زندہ ہے۔ مگر نئی نسل اپنی مادری زبان سے کچھ دور ہوتی جا رہی ہے۔ ہم نے اپنی نئی نسل کو مادری زبان سے جڑے رہنے کے لیے گجراتی زبان کے کلاس چلا رہے ہیں۔ ایک سکول رنچھوڑ لائن اور ایک گودرا میں چلارہے ہیں۔ جلد ہی چھ، سات مزید سکول کھولے جائیں گے جہاں گجراتی زبان پڑھائی جائے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سید عبدالرحمان کے مطابق ’گجراتی زبان کی کلاسز کے علاوہ کراچی میں جہاں گجراتی بولنے والوں کی اکثریت ہے وہاں چلنے والوں سکولوں میں ایک پیریڈ گجراتی زبان کا بھی رکھا جارہا ہے تا کہ گجراتی زبان کو فروغ دیا جا سکے۔‘
سید عبدالرحمان نے بتایا کہ ’تقسیم ہند کے وقت گجراتی زبان کی شہرت دیکھنی ہو تو لیاری سمیت اولڈ سٹی میں واقع لاتعداد عمارتوں پر آج بھی گجراتی زبان میں لکھے نام دیکھے جا سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’کراچی میں بوہری، پارسی، گھانچی، کچھی، سپاہی جماعت، پٹنی جماعت، کاٹھیاواڑ کے عربوں اور ترکوں کے ساتھ بڑی تعداد میں ہندو آج بھی گھر میں گجراتی زبان بولنے کے ساتھ گجراتی ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔‘
’گجراتی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے علاوہ تحریک آزادی کے اہم رہنما مہاتما گاندھی کی بھی مادری زبان تھی۔ جس پر ہمیں فخر ہے اور گجراتی زبان کو بچانے کے لیے ہم سے جو ہو سکا ہم کریں گے۔‘