اسلام آباد کے بوٹینیکل گارڈن سے تھوڑا آگے نکلیں تو لوک ورثہ کی عمارت موجود ہے۔
یہاں مصور، نقاش، خطاط، کروشیے کے ماہر، ظروف ساز، مجسمہ ساز، گلوکار، رقاص، پتھر شناس اور جانوروں کا تماشے دکھانے والوں کے علاوہ ہر فن لطیف سے واقف کاریگروں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔
انہی میں سے ایک ’عثمان ڈیزائنر‘ بھی ہیں۔
جب میں دکان کے پاس سے گزرا تو باہر سے ایسا لگا کہ اندر کوئی بھی نہیں ہے۔ ٹھک ٹھک کی ہلکی ہلکی آواز اندر سے آ رہی تھی۔ جھانکا تو ایک صاحب بلاک پرنٹ کے لیے لکڑی پر نقوش کھود رہے تھے۔
یہ مزے کا سین تھا۔ بلاک پرنٹ کی چادریں تو ساری زندگی استعمال کیں لیکن انہیں بنانے کے لیے جو بلاکس استعمال ہوتے ہیں وہ کیسے بنتے ہیں، یہ علم نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد عثمان بھٹی صاحب کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر ان سے اس تمام واقعے کی تفصیل پوچھی، اس کے بعد اجازت مانگی کہ ایک ویڈیو بنا لی جائے۔
اجازت ملنے پر باقی کام شروع ہوا، جس میں بلاکس بننے کی تفصیلات آپ دیکھ سکتے ہیں۔
جو مزے کی چیز معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ ان کی چادروں اور دوپٹوں کے رنگوں میں سے اکثر قدرتی ہوتے ہیں۔
انار کے چھلکے، کتھا، نیل، لوہے کا زنگ، چقندر، ہرڑ اور ایسی کئی دیگر قدرتی اشیا سے نکالے گئے رنگ ان کپڑوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ سوتی چادروں اور دوپٹوں پر بلاک پرنٹنگ کے لیے بنائے جانے والے لکڑی کے ان ٹھپوں کو سرسوں کے تیل میں بھگو کر رکھا جاتا ہے تاکہ ان کی پائیداری کئی گنا بڑھ جائے۔
عثمان ڈیزائنر کے نام سے ان کے پیج سوشل میڈیا پر بھی موجود ہیں جہاں وہ شادی بیاہ کے لباس سے لے کر عام ملبوسات تک کی خرید و فروخت کرتے ہیں، نیز ڈیزائنگ کے بھی آرڈر لیتے ہیں۔
عثمان کپڑوں کے معروف برانڈ ’کھاڈی‘ سے کئی برس تک وابستہ رہے۔ ان کے لیے بھی لکڑی کے یہی بلاکس تیار کیا کرتے تھے۔
لوک ورثہ میوزیم اگر آپ جائیں تو جہاں پینٹنگز کی دکانیں ہیں، اسی جھرمٹ میں عثمان ڈیزائنر بھی آپ کو اپنا کام کرتے دکھائی دیں گے۔