وہ اگست 2004 کا ایک گرم دن تھا، جب صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں جھل کے علاقے میں درون دانو نامی ایک شخص کو ٹوکے کے وار کرکے بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا۔
مقتول کے بھائی درون جھل نے ایف آئی آر میں قتل کا الزام اپنے رشتہ دار چیتن کوہلی پر عائد کیا، جس کے بعد پولیس ملزم کی گرفتاری کی تیاری شروع کر دیتی ہے۔
ایف آئی آر میں درون جھل نے موقف اختیار کیا کہ ’ملزم چیتن کوہلی نے میرے بھائی کو کھیتوں میں ٹوکے کے وار کر کے قتل کیا۔‘
واقعے کے اگلے روز (16 اگست، 2004 کو) چیتن جھل تھانے میں گرفتاری دے دیتے ہیں اور درون دانو کو قتل کرنے کا اقرار کرتے ہیں۔
جھل پولیس کو دیے گئے بیان میں چیتن نے کہا: ’15 اگست کو دن کے کسی وقت جب میں اپنے گھر پہنچا تو میں نے درون دانو کو اپنی بیوی کے ساتھ زیادتی کرتے دیکھا، میں نے طیش میں آکر ان پر ٹوکے سے وار کیے جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔‘
مقتول کے بھائی درون جھل اور چیتن کے بیانات میں نمایاں فرق ہے۔ اولذکر واقعے کا کھیتوں میں رونما ہونا بتاتا ہے جبکہ ملزم جرم کا ارتکاب اپنے گھر کے اندر قبول کرتا ہے۔
چیتن بعد میں پولیس کو دیے گئے اپنے بیان سے مکرتے ہوئے اسے دباؤ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم جھل پولیس آلہ قتل برآمد کر کے ان کے خلاف ایک مضبوط کیس تیار کرتی ہے۔
ٹرائل کئی برس تک جاری رہتا ہے اور استغاثہ کی جانب سے ملزم کے خلاف پیش کیے جانے والے شواہد اور ثبوت اتنے مضبوط اور قابل اعتماد ثابت ہوتے ہیں کہ سانگھڑ کی سیشن عدالت انہیں موت کی سزا سنا دیتی ہے۔
چیتن وقت ضائع کیے بغیر سندھ ہائی کورٹ میں فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرتے ہیں، جو مزید کئی برس پر محیط سماعتوں کے بعد خارج کر دی جاتی ہے۔
اس کے بعد وہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں، جہاں اپیل کی شنوائی میں مزید کئی سال گزر جاتے ہیں۔
استغاثہ کے تیار کردہ مقدمے میں عدالت عالیہ کو جھول نظر آتے ہیں اور عدم شواہد اور گواہان کے بیانات میں تضاد کے باعث دو روز قبل سیشن کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے۔
یوں 17 سال پہلے شروع ہونے والا مقدمہ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ چیتن کی سزائے موت ختم ہوتی ہے اور وہ آئندہ چند روز میں رہا ہو کر واپس اپنے گھر میں موجود ہوں گے۔
قاتل کون؟
چیتن کو تقریباً دو عشروں بعد رہائی تو مل جائے گی، لیکن انہوں نے زندگی کے 17 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیوں گزارے؟ اور 15 اگست، 2004 کو درون دانو کو کس نے قتل کیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب ملنا ضروری لیکن مشکل ہیں۔
سپریم کورٹ میں چیتن کے وکیل صدیق خان بلوچ کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے بغیر کسی وجہ کے 17 برس جیل میں گزارے، جس کا پاکستان کے قانون میں کوئی جواب نہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک کے قوانین میں ایسی صورت حال سامنے آنے پر اصل قاتل کو تلاش کرنے کی غرض سے تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے برطانیہ اور امریکہ کے علاوہ کئی دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے نام لیے جہاں ملزم بری ہو جائے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے خصوصاً پولیس نئے سرے سے کھوج شروع کرتی ہے۔
صدیق بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ درون دانو کے قتل کی دوبارہ سے تحقیقات شروع کروانے کی کوشش کریں گے تاکہ اصل قاتل پر ہاتھ ڈالا جاسکے۔
تاہم سینیئر وکیل عمران شفیق اس سلسلے میں بالکل مختلف خیالات رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ استغاثہ اور مدعی نے چیتن کے خلاف ایک مقدمہ تیار کیا اور شواہد عدالتوں کے سامنے پیش کیے، یعنی ان کی نظر میں ملزم ہی دراصل جرم کا مرتکب ہوا ہے نہ کہ کوئی اور۔
’تو جب استغاثہ اور مدعی نے ملزم پر شک کا اظہار کر دیا تو ایسی صورت میں وہ کسی دوسرے شخص پر اسی جرم کا الزام کیسے عائد کر سکتے ہیں؟ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پہلے ایک شخص پر شک کیا جائے اور اس کی بریت کی صورت میں کسی دوسرے کو ملزم بنا دیا جائے۔‘
عمران شفیق کا کہنا تھا کہ کسی بھی مقدمے میں ایک مجرم کے بری ہو جانے پر وہی الزام کسی دوسرے شخص پر عائد کرنا بالکل بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سیشن اور ہائی کورٹس ثبوتوں اور شواہد کے مستحکم اور شک سے بالا ہونے کی صورت میں ہی سزائیں دیتی ہیں اور اگر دو عدالتوں نے سزا دی ہے تو اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں نکالی جانی چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپریم کورٹ کی جانب سے سیشن اور ہائی کورٹس کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیے جانے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس مقدمے میں عدالت عظمیٰ نے مجرم کو شک کا فائدہ دیا ہے اور ایسا بالکل ممکن ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2004 میں ہونے والے قتل کی تحقیقات دوبارہ کھولنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ ’جب دو عدالتوں نے اس میں فیصلہ دے دیا ہے، مجرم کی نشاندہی ہو چکی ہے، تو کیس دوبارہ کیوں کھلے؟‘
’اگر سپریم کورٹ کسی کو شک کا فائدے دے تو اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ اس نے وہ جرم نہیں کیا بلکہ سپریم کورٹ کو استغاثہ کے ثبوتوں اور شواہد میں جھول نظر آیا اور شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ہی دیا جاتا ہے۔‘
عمران شفیق نے کہا کہ چیتن کے 17 سال پابند سلاسل رہنے کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ ’یوں سمجھ لیں کہ انھوں نے اس جرم کی سزا کے طور پر 17 سال قید کاٹی۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیتن جیل میں گزارے جانے والے 17 سالوں کے لیے ہرجانے کا حق دار نہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں نظام انصاف کو اتنا تیز ہونا چاہیے کہ بے قصور ملزمان کو غیر ضروری طور پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہ کرنا پڑیں۔