عائشہ مبارک علی کراچی میں رہنے والی ایک ایسی آرٹسٹ ہیں جو کچھ مختلف کام کر کے اپنا نام بنانا چاہتی ہیں۔
عائشہ ایک فائن آرٹسٹ، ویژول آرٹسٹ اور فیشن ڈیزائنر ہونے کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیم میں کام کرتی ہیں، یعنی آسان الفاظ میں یہ کہ وہ روایتی انداز میں کام کے ساتھ ساتھ اپنے کام میں جدید ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، ریسرچ، ری سائیکلنگ اور دیگر طریقوں کا استعمال بھی کر رہی ہیں۔
انہوں نے حال ہی میں ‘Dark Skies Gaze Back’ کے نام سے ایک پراجیکٹ کیا، جسے بین الاقوامی ایسوسی ایشن آف آسٹرانومیکل آرٹسٹ اور انٹرنیشنل ڈارک سکائی ایسوسی ایشن نے بھرپور سراہا اور اپنا تعاون فراہم کیا۔
25 سالہ عائشہ نے انڈس ویلی سکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچر سے سے بی ایف اے کی ڈگری حاصل کی۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے کام کا فوکس ٹیکنالوجی ہے۔
اپنے پراجیکٹ کے بارے میں عائشہ کا کہنا تھا: ’اس پراجیکٹ میں ہم نے نہ صرف ری سائیکلنگ پر دھیان دیا بلکہ مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے روشنی کی آلودگی کے موضوع پر بھی بات کی ہے۔‘
روشنی کی آلودگی یعنی لائٹ پولوشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہم کمرے کے اندر ہوں یا باہر ہر جگہ مختلف لائٹ ہوتی ہے، جس کے انسان پر مختلف اثرات ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی بھی بات نہیں کرتا۔ میں اس مسئلے پر اپنے آرٹ کے ذریعے ایک ڈائیلاگ شروع کرنا چاہتی ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عائشہ کہتی ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر لائٹ پولوشن پر بہت بات ہو رہی ہے لیکن پاکستان میں بہت کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔
ان کے مطابق اس قسم کی آلودگی سے مسائل جنم لے رہے ہیں، جیسے، ڈپریشن، میٹابولزم کے مسائل اور سونے کے معمول میں خرابی۔ اس کے علاوہ موبائل فون کا استعمال اتنا بڑھ گیا ہے جس کی سکرین سے نکلنے والی روشنی بھی انسانی جسم پر اثر کرتی ہے اور وہ اس موضوع پر بات کرکے اس پر بحث چھیڑنا چاہتی ہیں۔
عائشہ نے اس پراجیکٹ میں سوشل میڈیا ایپس اور ان میں استعمال ہونے والے فلٹرز اور ایموجیز کے صارفین پر ہونے والے اثرات کو بھی اجاگر کیا ہے۔
انہوں نے ایپس کو کاسٹیومز کے ساتھ دکھایا اور پرفارمنگ آرٹ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہ سارے کاسٹیومز ری سائیکلنگ اور پائیدار فیشن کو دیکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔
عائشہ نے تھری ڈی ماڈلنگ اور دھاتوں کا استعمال کر کے فیوژن آرٹ بھی تخلیق کیا، جس میں خواتین کو بااختیار بنانے کے عنصر کو بھی اجاگر کیا گیا۔
انہوں نے بتایا: ’لڑکیوں کو رات کے وقت باہر نہیں جانے دیا جاتا، تو ڈارک سکائز کے ساتھ اس کا ایک بہت گہرا تعلق بنتا ہے۔ اس کو سوچتے ہوئے میں نے اپنے کرداروں کو زرہ بکتر کی طرح کے لباس پہنائے جو ذاتی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں لیکن جو زیور آپ دیکھ رہے ہیں یہ مختلف ایپس میں استعمال ہونے والے فلٹرز کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ چہرے پر پہنے گئے زیورات کے سبب فلٹر آپ کو پہچان نہیں سکیں گے اور اس کے ذریعے میرے کردار اس آئیڈیا کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں کہ انٹرنیٹ پر ہر روز ہم جتنا ڈیٹا شئیر کرتے ہیں اس سے ہماری سکیورٹی پر کتنا فرق پڑ رہا ہے۔‘
عائشہ مبارک علی این ایف ٹی کے پلیٹ فارم پر بھی اپنے آرٹ کو دنیا بھر میں متعراف کروا رہی ہیں، جو صرف ڈیجیٹل آرٹ ہوتا ہے۔ ’این ایف ٹی نان فنجیبل ٹوکنز ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک آرٹسٹ کے لیے بہت اچھا طریقہ ہے کہ وہ اپنا کام بلاک چین کے اوپر ڈال سکے، نہ صرف یہ ان کے کام کا اصل یا خالص ہونے کا ایک ٹوکن ہے بلکہ یہ ایک آرٹسٹ کے لیے پہچان اور پیسے کمانے کا ذریعہ بھی بن گیا ہے۔‘