وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی کی ایک مقامی عدالت نے سیکٹر ای الیون میں لڑکے اور لڑکی پر جنسی تشدد کے مقدمے میں ملزمان پر فرد جرم عائد کر دیا۔
مقدمے کی سماعت منگل کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عطا ربانی کی عدالت میں ہوئی، جہاں پولیس نے مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت دوسرے ملزمان کو پیش کیا۔
جج عطا ربانی نے مرکزی ملزم سمیت سات شریک ملزمان پر فرد جرم عائد کیا، تاہم کمرہ عدالت میں موجود ملزمان نے صحت جرم سے انکار کر دیا۔
جن ملزمان پر فرد جرم عائد کیا گیا ان میں مرکزی ملزم عثمان مرزا کے علاوہ شریک ملزمان حافظ عطا الرحمن، ادریس قیوم بٹ، ریحان حسن مغل، عمر بلال مروت، محب بنگش اور فرحان شاہین شامل ہیں۔
فرد جرم عائد ہو جانے کے بعد عدالت نے مقدمے کی چارج شیٹ اور فرد جرم کی کاپیاں بھی تمام ملزمان کو مہیا کیں۔
ایڈیشنل ڈسٹڑکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی نے استغاثہ کے گواہان کو 12 اکتوبر کو طلب کر لیا، جبکہ گواہان کے بیانات قلم بند کرنے کے لیے نوٹس بھی جاری کر دیے گئے۔
یاد رہے کہ رواں سال سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں کچھ لوگوں کو ایک لڑکے اور لڑکی کے ساتھ تشدد اور جنسی بدسلوکی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس تفتیش کے نتیجے میں انکشاف ہوا کہ واقعہ گولڑہ پولیس سٹیشن کی حدود میں واقع ایک فلیٹ میں ہوا تھا۔
پولیس نے چھ جولائی 2020 کو مقدمہ درج کر کے سات میں سے کچھ ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔
عدالت میں پولیس کی جانب سے جمع کروائے گئے چالان کے مطابق عثمان مرزا تمام واقعات کا مرکزی کردار ہے، اور اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر لڑکے اور لڑکی کی نازیبا ویڈیو بنائی، انہیں بلیک میل کیا اور ان سے بھتے کی رقم بھی وصول کی۔
دوسری طرف جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی لڑکی نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ عثمان مرزا اور اس کے ساتھیوں نے انہیں اور ان کے دوست کو زنا پر مجبور کیا، اور وہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے رہے اور تمام واقعات کی فلم بندی بھی کرتے رہے۔
گولڑہ پولیس کے مطابق ایک ملزم کی نشاندہی پر ویڈیو بنانے والا موبائل فون اور لڑکے اور لڑکی کو ڈرانے کی غرض سے استعمال ہونے والا پستول (گلاک 9 ایم ایم) بھی برآمد کیے گئے۔
پولیس تحقیقات میں ثابت ہوا کہ ملزم عمر بلال نے عثمان مرزا کے کہنے پر لڑکے اور لڑکی سے سوا 11 لاکھ روپے بطور بھتہ وصول کیے، جس میں سے چھ لاکھ روپے عثمان کو جبکہ باقی دوسرے ساتھیوں میں تقسیم ہوئے۔
متاثرہ لڑکی نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان میں کہا تھا کہ عثمان مرزا اور اس کے دوست ہمارا مذاق اڑاتے اور ویڈیو بناتے رہے، جبکہ ملزم عثمان مرزا نے اسے لڑکے کے ساتھ زنا کرنے کا کہا، بصورت دیگر انہوں نے مجھے ریپ کرنے کی دھمکی دی، جبکہ اس کے دوست بھی اسی قسم کی دھمکیاں دیتے رہے۔
لڑکی نے کہا کہ عثمان اور اس کے ساتھیوں نے لڑکے پر بھی تشدد کیا، اس کی پینٹ اتروائی گئی اور پھر ان دونوں کو زنا پر مجبور کیا گیا۔
اپنے بیان میں متاثرہ لڑکی نے مزید کہا تھا کہ عثمان اور اس کے ساتھیوں نے زبردستی اس کی شرٹ اتروائی اور برہنہ ڈانس کرنے اور برہنہ حالت میں اس کے دوستوں کے سامنے گھومنے پر مجبور کیا، جبکہ اس دوران عثمان مرزا اور اس کے دوست ہمارا مذاق اڑاتے اور ویڈیو بناتے رہے، جو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل بھی کی گئی۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران عثمان مرزا کے وکیل نے کہا تھا کہ ان کا موکل واردات کے وقت وہاں موجود تھا نہ انہوں نے یہ جرم کیا ہے۔