جونہی ہی افغانستان میں نیٹو کے خالی کردہ اڈوں کے راستے پر طالبان کی فوٹیج دنیا میں دکھائی دی پاکستان میں اسلحے کے معروف تاجروں کو ٹیلی فون کالز موصول ہونا شروع ہو گئے۔
امریکی ہتھیار اٹھائے جنگجوؤں کی ویڈیوز، بکتر بند کاریں چلانے اور یہاں تک کہ امریکی ساختہ ہیلی کاپٹر اڑانے کی ویڈیوز نے دنیا کو خوفزدہ کر دیا لیکن کئی سو کلومیٹر دور پڑوسی ملک پاکستان میں کئی آنکھیں چمک اٹھیں اور احمد جیسے اسلحے کے تاجروں جنہوں نے اپنے گاہکوں کے لیے خصوصی آرڈر پر افغانستان سے اسلحہ سمگل کرنے میں دو دہائیاں گزاریں، نے موقعے کی اہمیت کو جان لیا۔
احمد اپنے ممکنہ گاہکوں کو ویڈیو کال پر بڑے جوش کے ساتھ کے ساتھ بتاتے ہیں: ’ہم انتظار کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے۔ ہمارے پاس پہلے امریکی ایم فور رائفلز اور پستولوں کے آرڈر موجود ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہمیں امید اور توقع ہے کہ جلد انتظام ہو جائے گا۔‘
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سمگلنگ کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن 2001 میں امریکہ کی قیادت میں افغانستان پر حملے کے ابتدائی دنوں میں اس میں بہت اضافہ ہوا۔ حکمت عملی کے لحاظ سے پاکستان نیٹو فوجیوں کے لیے سپلائی کا اہم ترین راستہ تھا اس لیے سامان سے بھرے بحری جہاز بحیرہ عرب سے کراچی آتے اور شمال کی طرف کئی سو کلومیٹر کا سفر کر کے سامان افغانستان پہنچایا جاتا۔
نیٹو کنٹینرز اور ٹرک لٹیروں کا آسان شکار تھے۔ راستے بدنامی کی حد تک خطرناک علاقوں سے ہو کر گذرتے جیسا کہ درہ خیبر جو دونوں ملکوں کے درمیان پہاڑی سلسلوں کو منقطع کرتا ہے اور کبھی شاہراہ ریشم کا اہم حصہ ہوتا تھا۔ اس لیے آدھے خالی کنٹینر کا پہنچنا یا پورا غائب ہو جانا عام بات تھی۔
اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان سرحد آنے جانے کے راستوں کی بدولت سمگلروں کے پرکشش مقام بن گئیں جنہوں نے لڑائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہتھیار، فوجی آلات، کپڑے حتیٰ کہ افغانستان میں نیٹو کے اڈوں سے کھانے پینے کی پرتعیشن اشیا پاکستان سمگل کیں۔ رات کے وقت دیکھنے کے قابل عینکوں سے لے کر گولیوں کے پٹوں تک کے اس غیر قانونی سامان کا بڑا حصہ افغانستان کے ساتھ شمالی مغربی سرحد کے قریب واقع شہر پشاور میں اکٹھا ہو گیا۔ یہاں تک کہ شہر کے سب سے مشہور بازار کو جارج ڈبلیو بش کے نام پر’بش کا بازار‘کا نام دیا گیا ہے۔
مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان دنوں اس علاقے میں اتنی لاقانونیت تھی کہ یہ نیم خود مختار’نو مین لینڈ‘بن چکا تھا۔ افراتفری کے عروج پر سامان کھلے عام گلیوں میں بیچا جاتا یا ملک کے دور دراز علاقوں میں بھیج دیا جاتا۔ لیکن جیسے جیسے جنگ طویل ہوئی کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ سرحدیں اور صوبے جو سمگلروں کو گلے لگاتے تھے، وہ بڑے پیمانے پر ریاستی کنٹرول میں آ گئے۔ افغانستان میں نیٹو کی سپلائی کا طریقہ بھی تبدیل ہو گیا اور پاکستان کی مرکزی حیثیت کم ہو گئی جس سے نیٹو کنٹینرز کو ملک کے اندر روکنے کے مواقع بھی کم ہو گئے۔
پاکستان کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ کوئی بھی افغانستان کے ساتھ سرحد کے مکمل طور پر بند ہونے کی ضمانت نہیں دے سکتا کیونکہ یہ 26 سو کلو میٹر طویل سرحد ہے جہاں بعض مقامات کومکمل بند کرنا ناممکن ہے۔’سمگلنگ پر قابو پایا گیا ہے‘اور امریکی و اتحادی فوجوں کے انخلا کے بعد ہی ایسا ہی کیا جاتا رہے گا۔ کبھی بدنام رہنے والے سرحدی علاقوں میں پولیس چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں۔
یہی حال بش بازار کا ہے جو اب زیادہ تر ستارہ اینڈ جہانگیر مارکیٹس کے اصلی نام سے جانا جاتا ہے۔ بازار اسلحے کی چینی نقول اور دیسی ساختہ اسلحے سے بھرا ہوا ہے۔ مقامی اسلحہ ساز اسے ایسے بناتے ہیں کہ وہ امریکی ساختہ دکھائی دے۔ مقامی اسلحہ ساز یہ ہتھیار درہ آدم خیل جیسے دوردراز کے قصبوں میں واقع اپنے کارخانوں میں تیار کرتے ہیں۔ اسلحے بیچنے والوں کا ماننا ہے کہ اب صورت حال میں تبدیلی آئے گی۔
ایک اسلحہ سٹور کے مالک کا کہنا تھا کہ’سچ کہوں تو ہمیں امریکی سامان چاہیے۔ اصلی کمانڈو کٹ برسوں سے یہاں نہیں آرہی۔‘انہوں نے رشک کے ساتھ اعتراف کیا کہ ان کے گن ہولسٹرز، جنگی جیکٹیں، بندوقوں کو تیل دینے کے آلات اور لڑائی میں کام دینے والے بوٹ اصل میں چینی ساختہ ہیں۔
’اس وقت سرحد بالکل بند ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ایک ماہ میں سامان آ جائے۔ ہم سب نے دیکھا کہ اڈے اور سفارت خانے خالی کیے جا رہے ہیں۔ مال آئے گا۔‘چند سو میٹر دور واقع ہتھیاروں کی گرد آلود دکان کے مالک خالد (یہ ان کا اصلی نام نہیں)، کو اس سے اتفاق ہے۔
ایک چھوٹی سے دکان میں امریکی ایم فور، ایم 16 اور اسالٹ رائفلرزکی مقامی ساختہ نقول سے سجائی گئی ہیں اور دکان کے مالک تقریباً چار سال پہلے تک انہیں فروخت کرتے تھے جس کے بعد حفاظتی انتظامات سخت کر دیے گئے اور سپلائی کم ہو کر گولیوں تک آ گئی جنہیں سرحد پار سمگل کرنا آسان تھا۔
مالک کا دعویٰ ہے کہ’طالبان سے پہلے امریکی اسلحہ تھوڑا تھوڑا کر کے آتا رہتا تھا کیونکہ (ختم ہونے والی افغان حکومت) کے حکام کو رشوت دینا آسان تھا۔ اس وقت مکمل پابندی ہے کیونکہ طالبان اپنے آپ کو قانون کے پابند افراد کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ صورت حال ایسی ہی رہے گی۔ان کا کہنا تھا کہ’اب وہ سرحد کے قریبی اضلاع میں اپنے رابطے کے لوگوں کو تازہ صورت حال کے بارے میں جاننے کے لیے باقاعدگی سے ٹیلی فون کالز کرتے ہیں۔’انہوں نے کہا کہ’اس وقت ان کے پاس کچھ نہیں ہے لیکن انہیں امید ہے۔‘
طالبان جنگجو اور ان کے حامی اڈوں، سفارت خانوں اور مغربی تنظیموں کے صدر دفاتر کو کھول رہے ہیں اور ان پرقبضہ کر کے انہیں خالی کر رہے ہیں۔ مقامی ڈیلروں کا خیال ہے کہ سامان کا اچانک حصول بالآخر اور لامحالہ پاکستان تک پھیل جائے گا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تیزی سے تباہ ہوتی معیشت (اقوام متحدہ خبردار کر چکی ہے کہ افغانستان کے بعض علاقے قحط کی لپیٹ میں آ سکتے) کا حتمی نتیجہ سمگلنگ میں اضافے کی صورت میں نکلے گا کیونکہ لوگ مزید رقم کے لیے ان سے جو بن پڑا کریں گے۔ غیر مصدقہ افواہیں ہیں کہ افغان فوجی بھاگتے ہوئے اپنے ہتھیار اور گولہ بارود ساتھ لے گئے تا کہ روزگار ختم ہونے کے بعد وہ دوبارہ پیسے کما سکیں۔
پہلے بھی کوششیں ہو چکی ہیں۔ اگست میں، آخری امریکی فوجی کے افغان سرزمین سے نکلنے سے صرف چند دن پہلے، پاکستانی کسٹم حکام نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے ایک گاڑی پکڑی جس میں امریکی اور نیٹو ہتھیار سمگل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی جن میں ایم فور اے ون کاربائن رائفلز ، گلوک اور بیریٹا پستول اور گولہ بارود شامل تھا۔ یہ اسلحہ پشاور کے قریب طورخم سرحد سے پاکستان سمگل کیا جا رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان بھر میں طالبان کی تیز پیش قدمی کے ساتھ ہی سرحدی مقامات پر سیکورٹی سخت کر دی گئی اور کئی مقامات پر سرحدی گزرگاہیں مکمل طور پر بند کر دی گئیں۔ پاکستانی حکام نے دی انڈپینڈنٹ کو یہ بھی بتایا ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کی زیادہ تعداد میں آمد کو نہیں سنبھال سکتے۔ اس لیے پوری طرح چوکس ہیں۔
اس دوران طورخم بارڈر پر کام کرنے والے طالبان کمانڈروں نے دی انڈپینڈنٹ کے ساتھ بات چیت میں اصرار کیا کہ ہتھیاروں کی سمگلنگ نہیں ہوگی کیونکہ’اب کوئی لاقانونیت نہیں ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ رشوت اور بدعنوانی سابق انتظامیہ کی خصوصیات تھیں۔ یہ ایک نیا اور بہتر دور ہے۔‘
کم از کم ابھی تک طورخم بارڈر پر ٹرک ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ انہیں دونوں طرف سے احتیاط سے چیک کیا جاتا ہے۔ صرف باقاعدہ سمگلنگ جو بظاہر چل رہی ہے چھوٹے بچوں کی طرف سے ٹرکوں کے پہیوں کے درمیان چھپ کر کھانا، کپڑے اور سگریٹ سمگل کرنا ہے۔ دی انڈپینڈنٹ نے دو بچوں کو ٹرکوں کے نیچے سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا۔
اور اسی لیے اسلحے کے ڈیلر احمد نے کال پر اعتراف کیا کہ انہیں توقع نہیں کہ سامان کے کنٹینر پرانے دنوں کی طرح کھلے عام آیا جایا کریں گے لیکن اڈوں پر لوٹ مار کے نتیجے میں زیادہ مقدار میں سامان مارکیٹ میں آئے گا۔
احمد کے بقول: ’میرا نہیں خیال کہ سامان سرحد پار لے جانا لازمی طور پر آسان ہو لیکن ہو سکتا ہے کہ زیادہ سامان دستیاب ہو۔ اس سے قیمتوں میں کمی آئے گی۔ اس وقت ایک ایم فور رائفل کی قیمت تقریباً 15 ہزار ڈالر ہے جو بہت زیادہ ہے۔‘
’جیسا کہ میں نے کہا، ہم انتظار کر رہے ہیں اور ہمیں امید ہے۔‘
رپورٹ میں تمام نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
© The Independent