اگر آپ پاکستان کے شہری ہیں، اور آپ نے 30 ستمبر (جمعرات) تک اپنا آمدن ٹیکس اور ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروائے تو نئے قانون کے تحت آپ کا موبائل فون غیر فعال اور بجلی، گیس کی سہولت منقطع کی جا سکتی ہیں۔
ٹیکس نادہندگان اور گوشوارے جمع نہ کروانے والوں پر بھاری جرمانے بھی لگائے جا سکتے ہیں۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ ٹیکس بچانے کی غرض سے آمدن کے ذرائع خفیہ رکھنے یا ٹیکس گوشوارے مقررہ وقت تک جمع نہ کرانے کو جرم قرار دیا گیا ہے، جس کی سزا جرمانے کے علاوہ قید بھی ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف حکومت نے حال ہی میں ٹیکس لاز (تیسری ترمیم) آرڈیننس 2021 میں ترامیم کے ذریعے ٹیکس نادہندگان اور گوشوارے جمع نہ کروانے والوں کے لیے سزاؤں میں اضافہ متعارف کروایا ہے۔
ٹیکس قوانین کے ماہر احمد ہمایوں کا کہنا تھا کہ نئے قوانین کا مقصد ٹیکس نادہندگان کے گرد گھیرے کو تنگ کرنا، اور انہیں ہر صورت ٹیکس ادا کرنے اور گوشوارے جمع کروانے پر مجبور کرنا ہے۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد سے ٹیکس کی مد میں محصولات بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات اٹھاتی رہی ہے، تاہم اس سلسلے میں ایف بی آر کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔
مالی سال 2020-21 کے لیے ٹیکس محصولات کا ابتدائی ہدف 4963 ارب روپے تھا، جبکہ اس کے برعکس ایف بی آر 4691 روپے اکٹھا کر پائی تھی۔
معاشی امور پر لکھنے والے صحافی ذیشان حیدر کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کا مقصد زیادہ سے زیادہ شہریوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے تاکہ ٹیکس اہداف کے قریب سے قریب تر جایا جا سکے۔
چیدہ چیدہ ترامیم
ویسے تو ٹیکس لاز (تیسری ترمیم) آرڈیننس 2021 کے تحت بہت ساری ترامیم کی گئی ہیں، تاہم ان میں سے چیدہ چیدہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ ٹیکس قانون میں ترامیم کے تحت بروقت ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والے شہری پر اس مقصد کے لیے مقررہ تاریخ کے بعد ہر دن ایک ہزار روپے یا مجموعی ٹیکس کا 0.1 فیصد، دونوں میں جو زیادہ ہے، جرمانہ عائد ہو گا۔
تنخواہ دار شہری پر کم از کم جرمانہ 10 ہزار روپے جب کہ غیر تنخواہ دار کو 50 ہزار روپے ہو گا۔
یعنی اگر کسی نے اس سال کے ٹیکس گوشوارے 30 ستمبر کے بجائے تین روز کی تاخیر سے جمع کیے تو انہیں واجب الادا ٹیکس کی رقم کے علاوہ دس ہزار روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔
2۔ گوشوارے بروقت جمع نہ کروانے والوں کا نام فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست (Active Taxpayers List ALT) میں سے نکال دیا جائے گا، اور اس فہرست میں دوبارہ نام ڈلوانے کے لیے اس شخص کو نئے سرے سے سارے عمل سے گزرنا ہو گا۔
3۔ گوشوارے بروقت جمع نہ کروانے والوں کے موبائل ٹیلیفون یا فون سم غیر فعال کی جا سکتی ہے، جبکہ انہیں بجلی اور گیس کی سہولت بھی منقطع کی جا سکتی ہے۔
4۔ ایف بی آر کا نظام نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے نظام کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے، اور نادرا آمدن خفیہ رکھنے والوں سے متعلق ایف بی آر کو مطلع کر سکتا ہے، جب کہ خود سے کسی بھی شہری کی آمدن کا اندازہ اور اس پر لگنے والے ٹیکس کا حساب کر سکتا ہے۔
احمد ہمایوں کا کہنا تھا کہ اگر نادرا کے ریکارڈ میں کسی شہری کے نام تین گاڑیاں یا گھر ہیں تو ان کی آمدن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اور اس سے اس شخص پر لگنے والے انکم ٹیکس کا حساب بھی آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
5۔ بجلی کے صنعتی میٹرز پر ایڈوانس ٹیکس 35 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے۔
ان اقدامات سے کتنا فائدہ یا نقصان؟
ماہرین ٹیکس دہندگان کی تعداد اور ٹیکس محصولات میں اضافے کی خاطر کیے گئے حکومتی اقدامات پر ملی جلی آرا رکھتے ہیں، کچھ انہیں مفید قرار دیتے ہیں، جبکہ دوسرے ان ترامیم کے منفی اثرات کی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔
عباس توقیر کا کہنا تھا ان اقدامات سے شہریوں میں ڈر اور خوف پیدا ہو گا، اور یہ پاکستان کی معیشت اور ٹیکس کے نظام کے لیے بالکل بھی تجویز نہیں کیے جا سکتے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان اور فائیلرز کی تعداد میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔
عباس توقیر کا کہنا تھا کہ خصوصا گوشوارے جمع کروانے کا عمل پیچیدہ اور مشکل ہے، جب کہ پاکستان میں اکثریت کم اور نا خواندہ لوگوں کی ہے، جو دفتری اور کاغذی کاروائیوں کا زیادہ پسند نہیں کرتے۔
’بہت سارے لوگ تو اس لیے بھی گوشوارے جمع نہیں کروائیں گے کہ غلطی کی صورت میں ان کے خلاف جرمانہ عائد اور مجرمانہ کاروائی کا آغاز ہو سکتا ہے۔‘
اسلام آباد ہی سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے ٹیکس قوانین کے ماہر کا کہنا تھا کہ جرمانے کی دفعات نادہندگان کے خلاف ایک مضبوط رکاوٹ ثابت ہوں گی، اور ان سے گوشواروں کا بروقت جمع ہونا، اور ٹیکس فائلرز کی تعداد بڑھانے میں مثبت نتائج حاصل ہوں گے۔
ان کے خیال میں اس سے حکومت کو ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ نان فائیلرز کو ٹیکس دہندگان کی فہرست میں سے نکالنا پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ .
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس فہرست میں نئے سرے سے شامل ہونا ایک لمبا اور تکلیف دہ عمل ہے، جس پر ٹیکس دہندہ کا خرچہ بھی آتا ہے۔
’ہو سکتا ہے اس اقدام سے بہت سارے لوگ گوشوارے جمع کروانے سے دور رہنے کی کوشش کریں۔‘
ذیشان حیدر کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات ٹیکس نا دہندگان کو تو ٹیکس کی ادائیگی پر اتنا مجبور نہ کر سکیں لیکن دہندگان میں خوف اور ڈر کا باعث بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن ان کا خاطر خواہ نتیجہ دیکھنے میں نہیں آیا، اس لیے سختی کے بجائے ایسے سائنسی طریقے اپنائے جائیں جن کے ذریعے شہری بخوشی ٹیکس کی ادائیگی پر آمادہ ہو۔
دنیا میں کیا ہوتا ہے؟
ٹیکسوں کی مد میں آمدن بڑھانے کے لیے سخت اقدامت متعارف کروانے کے سلسلے میں پاکستان دنیا کا واحد ملک نہیں ہے بلکہ کئی قوموں نے قومی آمدن میں اضافے کے لیے اس سے زیا دہ سختیوں سے کام لیا۔
اس سلسلے میں سکنڈینیوین ممالک کی مثال خاص طور پر دی جاتی ہے۔
ذیشان حیدر کا کہنا تھا کہ یورپ میں سکینڈینیوین ممالک فلاحی معاشروں کے طور پر ابھرے ہیں، اور اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ وہاں ہر شہری ٹیکس ادا کرتا ہے۔
’وہاں بھی لوگ اپنی مرضی سے ٹیکس نہ دیتے اگر حکومتیں سختی سے کام نہ لیتیں۔‘
مسلمان ممالک میں سے انڈونیشیا اور بنگلہ دیش ایسے ملک ہیں جہاں ٹیکس نادہندگان کو جرمانے کے علاوہ قید کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔
ملائیشیا میں ٹیکس ادا نہ کرنے کی سزا بھاری جرمانوں کے علاوہ زیادہ سے زیادہ تین سال قید بھی ہے۔