غیر ملکی انفراسٹرکچر کے چینی منصوبوں تلے غریب ممالک 385 ارب ڈالر کے ’پوشیدہ قرضوں‘ میں دب چکے ہیں، یہ انکشاف بدھ کو ایک تحقیق میں کیا گیا۔
اس کے علاوہ ایک تہائی سے زیادہ چینی منصوبے مبینہ کرپشن سکینڈلز اور احتجاج سے متاثر ہوئے ہیں۔
بین الاقوامی ترقیاتی ریسرچ لیب ’ایڈ ڈیٹا‘ کی بدھ کو شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت ریاستی بینکوں اور چینی کمپنیوں نے غیر واضح اور مبہم معاہدوں کے ذریعے کم آمدنی والے درجنوں ممالک کو ’قرضوں کے پھندے‘ میں پھنسا دیا ہے۔
چین کے 2013 میں اعلان کیے گئے اس فلیگ شپ پروگرام کے تحت افریقہ اور وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت تقریبا 163 ممالک میں سڑکوں، پلوں، بندرگاہوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کے لیے 843 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔
’ایڈ ڈیٹا‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بریڈ پارکس کےمطابق اس رقم کا تقریباً 70 فیصد سرکاری بینکوں یا چینی کمپنیوں اور ان ممالک میں مقامی شراکت داروں کے درمیان مشترکہ منصوبوں کے لیے فراہم گیا ہے جو پہلے ہی بیجنگ کے مقروض ہیں۔
پارکس نے کہا: ’بہت سے غریب ممالک جب مزید قرض نہیں لے سکے تو اس (چین) نے تخلیقی پالیسی اختیار کی۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ قرض ’مرکزی حکومتوں کے علاوہ دیگر گروپس‘ کو بھی دیا گیا اور ان گروپس کی جانب سے قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں حکومتی گارنٹی لی گئی ہے۔
انہوں نے کہا ’یہ معاہدے مبہم ہیں اور حکومتیں خود نہیں جانتیں کہ وہ چین کے کتنی مقروض ہیں۔‘
مطالعے سے پتہ چلا کہ کم رپورٹ ہونے والے ان قرضوں کی مالیت تقریبا 385 ارب ڈالر ہے۔
ورجینیا کے کالج آف ولیم اور میری میں قائم ’ایڈ ڈیٹا‘ نے ایسے کم اور درمیانی آمدنی والے 45 ممالک کی فہرست جاری کی ہے جن پر اب چین کے قرضوں کا حجم ان کی قومی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے 10 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
پاکستان میں بلوچستان جیسی جگہوں پر چینی سرمایہ کاری نے غم و غصے کو ہوا دی ہے جہاں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں ان منصوبوں سے بہت کم فائدہ ہوا ہے اورعسکریت پسندوں اور باغیوں نے چینی سرمایہ کاری کو کمزور کرنے کے لیے حملے شروع کیے ہیں۔
پارکس نے کہا ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے حوالے سے اب ہم اس کے شراکت داروں میں پچھتاوا دیکھ رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول ’بہت سے غیر ملکی رہنما جو ابتدا میں بی آر آئی کی بس میں سوار ہونے کے لیے بے تاب تھے، اب بڑھتے ہوئے قرضوں کے خدشات کی وجہ سے چین کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو معطل یا منسوخ کر رہے ہیں۔‘
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مقروض ممالک پر دباؤ کی وجہ سے گذشتہ دو سالوں میں بیجنگ کی جانب سے قرض فراہم کرنے کی رفتار سست ہوگئی ہے۔
ترقی یافتہ گروپ آف سیون (G7) ممالک کی جانب سے رواں سال عالمی قرضوں میں بیجنگ کے غلبے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک سکیم کا بھی اعلان سامنے آیا تھا۔
’ایڈ ڈیٹا‘ کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بیجنگ نے کم مدت میں ادائیگی والے قرضوں پر زیادہ شرح سود کا مطالبہ کیا ہے۔
پارکس نے کہا کہ ان کی تحقیق نے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ بی آر آئی ’اتحاد بنانے کا کوئی عظیم منصوبہ نہیں تھا بلکہ چین کے لیے سب سے زیادہ منافع بخش منصوبے کی تلاش تھی۔‘