سعودی عرب نے اتوار کو تصدیق کی ہے کہ اس نے گذشتہ مہینے ایران کی نئی حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا پہلا دور کیا۔
2016 میں تعلقات منقطع کرنے والے دونوں ملکوں نے اپریل میں ایسے وقت پر مذاکرات شروع کیے جب واشنگٹن اور تہران ایک ایٹمی معاہدے کو بحال کرنے پر تبادلہ خیال کر رہے تھے اور جس کی ریاض اور اس کے اتحادیوں نے مخالفت کی تھی۔
اگست میں ایران کے نئے سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی کے عہدہ سنبھالنے سے کچھ مہینے قبل عراق کے اندر سعودی عرب اور ایران میں مذاکرات کے تین دور ہوئے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ تازہ ترین دور 21 ستمبر کو ہوا تھا، تاہم انہوں نے ملاقات کا مقام نہیں بتایا۔
یہ تاریخ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صدر رئیسی کی تقریر سے میل کھاتی ہے۔
انہوں نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران بتایا: ’یہ بات چیت ابھی تک ابتدائی مرحلے میں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ دونوں فریقوں کے درمیان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک بنیاد فراہم کرے گی اور ہم اسے سود مند بنانے کی کوشش کریں گے۔‘
ریاض اور تہران دونوں نے امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات کشیدگی کو کم کرسکتے ہیں، جس سے لگتا ہے کہ کسی بڑی سفارتی پیش رفت کی توقعات کم ہیں۔
ایران نے مذاکرات کے نئے دور کے بارے میں فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جبکہ ریاض نے کہا ہے کہ وہ رئیسی حکومت کو زمینی حقائق کے مطابق پرکھے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو ترک کر دیا تھا جس کے تحت ایران نے خود پر لگی پابندیوں میں نرمی کے بدلے جوہری پروگرام محدود کرنا قبول کیا تھا۔ تہران نے صدر ٹرمپ کے اقدام کا جواب معاہدے کی کچھ خلاف ورزیوں کے ساتھ دیا تھا۔
اس معاہدے کو بحال کرنے کے لیے امریکہ اور ایران کی بالواسطہ بات چیت جون میں رک گئی تھی اور ابھی تک رئیسی حکومت کے تحت دوبارہ شروع نہیں ہوئی۔ مغربی طاقتوں نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات میں واپس آئے۔
شہزادہ فیصل یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل کے دورہ ریاض کے دوران گفتگو کر رہے تھے، جنہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے شراکت داروں کو جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے امکانات سے آگاہ کیا ہے۔