نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں بدھ کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا محمد ربانی نے ملزمان پر فرد جرم عائد کیے جانے کا معاملہ موخر کردیا ہے اور استغاثہ کو حکم دیا ہے کہ وہ ملزمان کے وکلا کو تمام بیانات اور شہادتوں کی تفصیلات فوراً فراہم کریں۔
سابق پاکستانی سفارت کار کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں بدھ کو سماعت کے دوران ایک ملزم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر 1979 میں چلنے والے قتل کے مقدمے کا حوالہ دیا۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سیاسی حریف کے قتل کے الزام میں ملنے والی پھانسی کی سزا کو ’عدالتی قتل‘ تصور کیا جاتا ہے اور بین الاقوامی شہرت حاصل ہونے کے باوجود وکلا بہت کم کسی مقدمے میں اس فیصلے کو بطور ریفرنس پیش کرتے ہیں۔
تاہم بدھ کو اسلام آباد میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران تھیراپی ورکس کے سربراہ کے وکیل محمد اکرم قریشی نے اپنے دلائل کے دوران مشہور زمانہ ذوالفقار علی بھٹو مقدمے کا ذکر کیا۔
محمد اکرم قریشی عدالت میں ملزمان کو استغاثہ کی طرف سے اکٹھی کی گئی شہادتیں اور تمام گواہوں کے بیانات فراہم نہ کیے جانے کی بنیاد پر فرد جرم کو موخر کرنے کے حق میں دلائل پیش کر رہے تھے۔
انہوں نے پاکستانی اور غیر ملکی عدالتوں کے کئی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو تمام بیانات اور شہادتوں کی تفصیلات کا فرد جرم عائد کرنے سے قبل فراہم کیا جانا ضروری ہے۔
اسی سلسلے میں محمد اکرم قریشی نے کہا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں بھی یہ نقطہ زیر بحث آیا تھا اور عدالت نے ملزمان کو تمام گواہوں کے بیانات اور ثبوتوں کی تفصیلات کا فراہم کیا جانا ضروری قرار دیا تھا۔
ملزمان کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا محمد ربانی نے فرد جرم عائد کرنے کے معاملے کو موخر کرتے ہوئے استغاثہ کو مدعا علیہان کو تمام بیانات اور شہادتوں کی تفصیلات فوراً فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
عدالت کی ہدایت پر استغاثہ اور اسلام آباد پولیس کی جانب سے پیش ہونے والے اہلکاروں نے وقفے کے دوران ملزمان کے وکلا کو مطلوبہ دستاویزات فراہم کردیں۔
جج عطا محمد ربانی نے فرد جرم عائد کرنے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ملزمان کو کل (جمعرات) کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
اس قبل نور مقدم قتل کیس کے تمام ملزمان کو عدالت میں لائے جانے پر جج نے ایک ایک ملزم کا نام پکار کر ان کی موجودگی کو یقینی بنایا۔
اس موقع پر مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے عدالت کو بتایا کہ ان کو وکیل کی سہولت مہیا نہیں کی جارہی اور جیل حکام اس سلسلے میں جج صاحب کا تحریری حکم نامہ طلب کر رہے ہیں۔
ایک دوسرے موقع پر ظاہر جعفر نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ انہیں وکیل فراہم کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں وکلا کی ایک فہرست انہیں بھیجی گئی ہے جو ابھی تک انہیں مل نہیں پائی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ظاہر جعفر نے جج عطا محمد ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’مجھے بتایا جائے کہ آگے کیا ہوگا اور عدالت کا اس سلسلے میں کیا پلان ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں کھل کر بولنے کا موقع دیا جائے اور وہ خود عدالت کے سامنے بات کرنا چاہتے ہیں۔
اس پر جج عطا محمد ربانی نے کہا کہ عدالت کا کوئی پلان نہیں ہوتا بلکہ کارروائی ہوتی ہے جو قانون کے مطابق ہوگی۔
انہوں نے مرکزی ملزم کو بتایا کہ ان کا وکیل ہی عدالت میں بول سکتا ہے اور وکیل ہی انہیں عدالتی کارروائی اور آگے ہونے والے واقعات سے متعلق بتائیں گے۔
جج عطا محمد ربانی نے ایک دوسرے موقعے پر ظاہر جعفر سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے وکیل کر لیا ہے؟ جس پر مرکزی ملزم نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا: ’کوئی ہماری بات نہیں سن رہا۔‘
اس پر جج عطا محمد ربانی نے کہا کہ ان کو وکیل کی ضرورت پڑے گی کیونکہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد شہادتیں پیش ہوں گی۔
جج نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر سے عدالت میں موجود ایک وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ آپ کے وکیل ہیں۔
اس پر ظاہر جعفر نے کہا کہ ان کے بھائی نے وکیل کا انتظام کیا ہے اور ان (بھائی) سے رابطہ نہ ہونے کے باعث انہیں نہیں معلوم کہ ان کے وکیل کون ہیں۔
مدعا علیہا کے وکلا کے دلائل
عدالت کی کارروائی کے دوران تھراپی ورکس کے سربراہ کے وکیل محمد اکرم قریشی کے علاوہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت جعفر کے وکیل اسد جمال اور دوسرے وکلا نے دلائل دیے۔
وکلا نے عدالت کو بتایا کہ استغاثہ نے ابھی تک انہیں تمام گواہوں کے بیانات اور اکٹھے کیے گئے ثبوتوں سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں جس کے بغیر فرد جرم عائد کرنا نہ صرف قانون بلکہ آئین پاکستان کی بھی خلاف ورزی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے ابھی تک جائے واردات سے حاصل ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی مہیا نہیں کی ہے۔
اس سلسلے میں ملزمان کے وکلا نے کئی قوانین اور عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ کسی مقدمے استعمال ہونے والے بیانات اور ثبوتوں کی تفصیلات جانے بغیر مدعا علیہان اپنا کیس تیار نہیں کر سکتے۔
اس جمال ایڈوکیٹ نے ایک موقع پر کہا: ’ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی ملزم کارروائی کے دوران کسی بیان یا ثبوت کی تفصیلات کے سامنے آنے پر حیران ہو جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قوانین اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں کہ ملزمان کو فرد جرم عائد ہونے سے سات روز قبل مقدمے کا سارا مواد فراہم کر دیا جائے تاکہ وہ سماعت کے لیے پوری طرح تیاری کر سکیں۔
مقدمے کے مدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور ایڈوکیٹ نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ پیشی پر عدالت نے چھ اکتوبر کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے مقرر کی تھی اور ایسا کرنا صرف عدالت ہی کا اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملزمان کو تمام ضروری بیانات اور ثبوتوں کی تفصیلات فراہم کر دی گئی ہیں جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج سیل ہے اور اسے کھولا نہیں جا سکتا۔
اس پر ملزمان کے ایک وکیل نے کہا کہ عدالت کی اجازت سے سی سی ٹی وی فوٹیج کو کھول کر ہمیں فراہم کیے جانے کے بعد دوبارہ سیل کیا جا سکتا ہے۔
نور مقدم قتل کیس
یاد رہے کہ 20 جولائی کو سابق پاکستانی سفارت کار کی 28 سالہ بیٹی نور مقدم کی لاش اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون فور کے ایک گھر سے برآمد ہوئی تھی۔
جب کہ پاکستان کی ایک بڑے کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والے ظاہر جعفر کو بھی اس گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر مرکزی ملزم ہیں جبکہ ان کے والدین اور تین گھریلو ملازمین پر جرم کی اعانت اور حقائق چھپانے کے الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ زیر حراست ہیں۔
تھیراپی ورکس نامی ادارے کے مالک سمیت چھ اہلکاروں پر بھی اعانت کے الزامات ہیں تاہم وہ ضمانت پر رہا ہیں۔