نور مقدم کیس: ’جناب اردو نہیں آتی، انگریزی میں دستاویزات دیں‘

سابق پاکستانی سفارت کار کی بیٹی نور مقدم کے قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر اور ان کے والد ذاکر جعفر نے اسلام آباد کے سیشن جج سے انہیں عدالتی دستاویزات انگریزی زبان میں فراہم کرنے کی استدعا کی ہے۔

سابق پاکستانی سفارت کار کی بیٹی نور مقدم کے قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر اور ان کے والد ذاکر جعفر نے اسلام آباد کے سیشن جج سے انہیں عدالتی دستاویزات انگریزی زبان میں فراہم کرنے کی استدعا کی ہے۔

نور مقدم قتل مقدمے کی سماعت جمعرات کو اسلام آباد میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا محمد ربانی کی عدالت میں ہوئی، جس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت دوسرے تمام ملزمان پیش ہوئے۔

قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت جعفر کے علاوہ ان کے تین ملازمین اور اسلام آباد میں نفسیاتی مسائل کے حل کے سلسلے میں خدمات فراہم کرنے والے ادارے تھیراپی ورکس کے سربراہ اور چھ دوسرے اہلکار شامل ہیں۔

اسلام آباد پولیس نے ہتھکڑی لگے ملزمان کو عدالت کے سامنے پیش کیا، تاہم ملزمہ عصمت جعفر کو ہتھکڑی نہیں لگائی گئی تھی۔

حاضری کے بعد عدالت نے ملزمان کو نور مقدم قتل مقدمے میں اب تک ریکارڈ کیے گئے بیانات کی کاپیاں فراہم کرنے کا حکم دیا۔

عدالت کی ہدایت پر تمام ملزمان کو کمرہ عدالت سے باہر لے جایا گیا اور برآمدے میں موجود لکڑی کے بینچ پر بٹھا کر انہیں فرداً فرداً بیانات کی کاپیاں دیں گئیں۔

بیانات کی فراہمی کے بعد ملزمان کو واپس کمرہ عدالت میں لایا گیا، تو دوسرے ملزمان کے جھرمٹ میں کھڑے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے انگریزی میں کہا: ’جناب ہمیں اردو سمجھ نہیں آتی اس لیے انگریزی میں لکھی گئی دستاویزات دی جائیں تو بہتر ہو گا۔‘

اس پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا محمد ربانی نے کہا کہ ان دستاویزات کا آپ کے لیے کوئی فائدہ نہیں ہے، آپ کے وکیل ان سے مستفید ہوں گے۔

جج نے مزید کہا کہ کیس کے تفتیشی افسر کو انگریزی نہیں آتی اور وہ ایسے بیانات صرف اردو میں ہی ریکارڈ کرتے اور لکھتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’آپ یہ کاغذات نہ بھی پڑھیں تو فرق نہیں پڑے گا، ان کی آپ کے وکیل کو زیادہ ضرورت ہے۔‘

اس سے قبل ذاکر جعفر نے عدالت کو مقدمے کی سماعت زیادہ عرصے تک ملتوی کرنے کی گزارش کی۔

انہوں نے انگریزی میں جج سے شکایت کرتے ہوئے کہا: ’مجھے میرے وکیل اور خاندان تک رسائی نہیں دی جاری ہے، اور فون کی سہولت بھی مہیا نہیں ہے۔‘

ان کی شکایت کا جواب دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ان تمام باتوں کا تعلق جیل رولز سے ہے، تاہم جیل کی ڈیوڑھی میں ٹیلی فون کی سہولت موجود ہوتی ہے، اسکا پتا کیا جا سکتا ہے۔

گہرے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس مرکزی ملزم ظاہر جعفر جمعرات کو عدالت کے سامنے حاضری کے دوران پہلی پیشیوں کے برعکس نسبتا بہتر جسمانی اور ذہنی حالت میں نظر آرہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماعت کے دوران ظاہر جعفر نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں ان کے سیل کی حالت بہت خراب ہے اور انہیں بھی وکیل اور اہل خانہ سے رسائی نہیں دی جا رہی۔ 

انہوں نے جج کو ان کے جیل سیل کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی۔ 

ایک دوسرے موقعے پر ملزمہ عصمت جعفر نے بھی عدالت سے ایک قانونی نقطے کی وضاحت چاہی، جس پر جج صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں پوچھ رہی ہیں، تو انہوں نے کہا: ’جی میں طریقہ کار سمجھنا چاہ رہی ہوں۔‘ 

ملزمہ عصمت جعفر کے وکیل اسد جمال نے عدالت سے شکایت کی کہ استغاثہ ملزمان کو مقدمے کا حصہ بنائی جانے والے تمام شواہد فراہم نہیں کر پا رہی ہے۔ 

اس سلسلے میں انہوں نے سی سی ٹی وی ویڈیو کا ذکر کرت ہوئے کہا کہ کاغذی دستاویزات کے علاوہ الیکٹرانک یا ڈیجیٹل شہادتوں کا بھی فراہم کیا جانا ضروری ہے۔ 

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ استغاثہ کو سی سی ٹی فوٹیج کی کاپیاں بنا کر تمام ملزمان کو فراہم کرنے کی ہدایت کی جائے۔ 

اس پر جج کا کہنا تھا کہ عام طور پر پولیس ویڈیو کی فرانزک کروانے کے بعد وہ سرکاری مال خانے میں جمع کرا دیتی ہے، شاید اسی لیے اس کی فراہمی میں تاخیر ہوئی ہو۔ 

وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ کاغذی اور الیکٹرانک یا ڈیجیٹل شہادتوں کی فراہمی کے بغیر ٹرائل کو آگے نہ بڑھایا جائے۔ ’ایسا کرنے سے ٹرائل میں مسائل پیش آ سکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی فرانزک رپورٹ کے علاوہ دوسرا مواد بھی آنا باقی ہے، جو ملزمان کو ہر صورت میں مہیا کیا جانا چاہیے۔ 

تھیراپی ورکس کے سربراہ طاہر ظہور کے وکیل محمد اکرم قریشی نے بھی اس سلسلے میں حمایت کرتے ہوئے قوانین کا حوالہ دیا۔ 

عدالت سے ملزمان کے اکلا کو یقین دلایا کہ جو دستاویزات فراہم کرنے کی ضرورت ہو گی اسے یقینی بنایا جائے گا۔ 

تقریبا دو گھنٹے کی کاروائی کے بعد سماعت چھ اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

نور مقدم قتل کیس

یاد رہے کہ 20 جولائی کو سابق پاکستانی سفارت کار کی 28 سالہ بیٹی نور مقدم کی لاش اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون فور کے ایک گھر سے برآمد ہوئی تھی، جب کہ پاکستان کی ایک بڑے کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والے ظاہر جعفر کو بھی اس گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر مرکزی ملزم ہیں جبکہ ان کے والدین اور تین گھریلو ملازمین پر جرم کی اعانت اور حقائق چھپانے کے الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ زیر حراست ہیں۔

تھیراپی ورکس نامی ادارے کے مالک سمیت چھ اہلکاروں پر بھی اعانت کے الزامات ہیں، تاہم وہ ضمانت پر ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان