پاکستان میں مردوں کی طرح خواتین کی قومی ہاکی ٹیم بھی بدحالی سے دوچار ہے۔
کسی عالمی سطح کے ایونٹ میں کوالیفائی کرنے کی قابلیت سے محروم اس ٹیم نے ایشیائی مقابلوں میں آخری بار 2018میں حصہ لیا تھا۔ اس کے بعد ٹیم کا کوئی پرسان حال نہیں۔
ٹیم مینجمنٹ کے مطابق وومن ہاکی ٹیم کو عالمی معیار تو دور کی بات ایشیائی مقابلوں کے لیے تیار کرنا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے۔
وہ اس کی سب سے بڑی وجوہات فنڈز کی عدم دستیابی اور کھلاڑیوں کے کنٹریکٹ یا ڈیپارٹمنٹس میں ملازمتیں نہ ہونا بتاتے ہیں۔
دوسری جانب خواتین کھلاڑیوں کا شکوہ ہے کہ انہیں عالمی معیار کے مطابق تربیت کی سہولت ہے اور نہ ہی ان کی مالی سپورٹ ہے، جس نے کھیلنا ہے وہ اپنے خرچ پر کھیلتی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں بھی کرکٹ وومن ٹیم جیسی سہولیات دی جائیں۔
گذشتہ ساڑھے تین سال سے وومن ہاکی ٹیم کوئی سیریز تک نہ کھیل سکی۔ ٹیم کسی دوسرے ملک کھیلنے گئی اور نہ ہی کوئی غیر ملکی ہاکی ٹیم پاکستان آئی جس سے کھلاڑیوں کی مسلسل حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔
وومن ہاکی ٹیم کی بدحالی کیوں؟
نیشنل وومن ہاکی ٹیم کی مینیجر چاند پروین نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اس کی بڑی وجہ کھلاڑیوں کو عالمی سطح کی سہولیات نہ ہونا، مالی امداد نہ ملنے سمیت دوسرے ممالک سے سیریز منعقد نہ ہونا ہے۔
چاند پروین کے مطابق پاکستان کی وومن ہاکی ٹیم نے آخری بار 2018 میں ایشین گیمز کے مقابلوں میں تھائی لینڈ میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔
اس کے بعد کوئی سیریز منعقد نہ ہوسکی کیونکہ ’ہمارے پاس خواتین کھلاڑیوں کی بہترین تربیت کے لیے فنڈز نہیں اور نہ ہی انہیں ڈیپارٹمنٹس میں مناسب ملازمتیں میسر ہیں، سب اپنے شوق سے کھیلتی ہیں۔‘
ان کے بقول اس وقت عدم سہولیات کے باعث ٹیم میں کل دس 12 کھلاڑی رہ گئی ہیں۔ ’جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے پلیئرز مایوس ہوکر گیم چھوڑتی جارہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا ٹیم میں 20 سے 30 تک قومی درجے کی کھلاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم کمی سے دوچار ہیں۔
چاند پروین نے بتایا کہ وومن ہاکی ورلڈ کپ 2023 میں ہونا ہے اور اس کے کوالیفائنگ راؤنڈ اس سال کے آخر میں شروع ہو جائیں گے۔
’ہم نے ابھی کھلاڑیوں کی سلیکشن اور تربیت کے لیے کمیپ لگانا ہے، جو رواں ماہ لگنا چاہیے مگر ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ عالمی سطح کا کیمپ لگا سکیں یا ایسی کھلاڑی لڑکیاں تلاش کریں جو عالمی سطح پر ٹیم کی نمائندگی کر سکیں۔‘
کھلاڑی عدم دلچسپی کا شکار کیوں؟
نیشنل وومن ہاکی ٹیم کی کھلاڑی ندا اصغر نے کہا کہ خواتین ہاکی ٹیم پر حکومتی سطح پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ ’نوکریاں ملتی ہیں نہ ہاکی فیڈریشن کنٹریکٹ دیتی ہے ہم جتنی بھی کھلاڑی ہیں اپنی مدد آپ کے تحت کھیلتی ہیں۔
’کھلاڑیوں کی خوراک تو درکنار انہیں فٹنس اور تربیت کے لیے عالمی معیار کے کوچز بھی میسر نہیں ہاکی کھیلنے کے لیےکٹیں بھی خود خریدنا پڑتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسرا یہ کہ جب سے کرونا وبا کی وجہ سے سٹیڈیم اور پریکٹس بند کی گئی ہے دوبارہ اوپن نہیں ہوئی جس سے کھلاڑی بددل ہوکر گھر بیٹھ گئی ہیں۔
’خواتین کھلاڑی لڑکوں کی طرح ہر سٹیڈیم یا گراؤنڈ میں پریکٹس بھی نہیں کر سکتیں اور نہ ہی ہرجگہ اتنی خواتین پلیئرز میسر ہوتی ہیں کہ کم از کم خود ہی بہتر پریکٹس کر لیں۔‘
نادیہ کے بقول وہ آخری بار ایشین گیمز تھائی لینڈ میں 2018 کو گئی تھیں جہاں ٹیم نے اچھی کارکردگی دکھاتے ہوئے کانسی کا تمغہ جیتا تھا لیکن اس کے بعد کوئی غیر ملکی سیریز ایسی نہیں جہاں پاکستانی ٹیم کھیلی ہو نہ کوئی ٹیم یہاں آئی اس لیے ہمیں وومن ہاکی کا مستقبل زیادہ روشن دکھائی نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ اپنے طور پر کتنی دیر تک ہاکی کھیلی جاسکتی ہے۔ اب حکومت کو چاہیے وومن ہاکی ٹیم کو سہولیات کےساتھ پریکٹس کے لیے مواقع فراہم کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ کپ کے کوالفائینگ راؤنڈ شروع ہونے ہیں لیکن ابھی تک انہیں کیمپ سے متعلق کوئی اطلاع نہیں کب شروع ہوگا یا کہاں پریکٹس کریں تو کوالیفائی کیا کریں گے؟