بھارتی انتخابی نتائج کے بارے میں چاہے کوئی کچھ بھی کہے لیکن میرے خیال میں اسے ’مودی سونامی‘ کہنا صحیح ہو گا۔
بھلے ہی یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت ہے تاہم اس جیت کا سہرا نریندر مودی کے سر ہے، جنہوں نے بھارت کی ہندو اکثریت پر لگتا ہے جادو کر دیا ہے۔
ان کا منڈیٹ دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ وہ لمبے عرصے تک بھارت پر راج کریں گے اور ان پالیسیوں کو نافذالعمل کرانے میں کوئی دقت محسوس نہیں کریں گے جو آر ایس ایس نے ان کے لیے ترتیب دی ہیں۔
وہ چاہے سکولوں میں ہندو مذہب کا پرچار ہو، معیشت کے لیے گھریلو دستکاری پر انحصار پیدا کرنا ہو یا اقلیت کے لیے ایسے حالات پیدا کرنا ہو کہ انہیں یا تو ہجرت کرنا پڑے یا مذہب کی تبدیلی یا جزیہ دے کر کاروبار کرنا ہو۔
مگر اتحاد اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس بھی مودی کی قیادت والی بی جے پی کا مقابلہ نہیں کر پائی جو یہاں کی اقلیت کے لیے اب خاصا پریشان کن مرحلہ بن چکا ہے۔ حیران کن بات یہ کہ آزاد ہندوستان میں گاندھی پریوار کی موروثی نشست امیٹھی سے بھی کانگریس کے سربراہ راہل گاندھی انتخاب ہار گئے۔
نتائج کے بعد راہل گاندھی نے پارٹی لیڈر کی حیثیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ مودی کا ’کانگریس مکت بھارت‘ یعنی کانگریس سے آزاد بھارت کا وعدہ پورا ہو گیا ہے، جس کی شروعات انہوں نے 2014 میں کی تھی۔
کانگریس کا بھارت کی تقریبا 21 ریاستوں میں صفایا ہو چکا ہے اور جن چند ریاستوں میں 2008 کے ریاستی انتخابات میں سے کامیابی ملی تھی، وہاں بھی یہ گنی چنی چند نشستیں ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہاں مودی کی بی جے پی نہ صرف پہلی بار ریاست میں دوسری بڑی پارٹی کے طور پر ابھری ہے بلکہ ممتا بینر جی کی پارٹی میں انتشار کی کیفیت پیدا کرکے ممتا کو پارٹی کی سربراہی سے مستعفی ہونے پر مجبور بھی ہونا پڑا۔
پارٹی کو یقین تھا کہ دلی واسی انہیں سات نشستوں میں سے کم از کم پانچ سیٹوں پر جتوائیں گے لیکن نتائج نے سب کو چونکا دیا۔
خود پارٹی کے کارکن سوچتے ہیں کہ وہ ووٹروں کو بنیادی سہولیات کے بجائے مذہبی جنونیت کیوں نہیں دے پائے جس کی وہ مخالفت کرتے تھے۔
نتائج سننے کے بعد اب کانگریس کو اس بات کا اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بھارتی عوام کی سوچ تبدیل ہو چکی ہے اور اب سیکولرازم کے بجائے ہندوتوا اس کی پہلی ترجیح بن گئی ہے، جو بھی پارٹی ہندو راشٹر کا نعرہ دے گی وہی نئے بھارت میں زندہ رہ سکے گی۔
انہوں نے کانگریس سمیت تمام علاقائی جماعتوں کا خاتمہ کرنے کا تہیہ کیا ہے جیسا کہ پنجاب میں اکالی دل، جموں و کشمیر میں پی ڈی پی اور تامل ناڈو میں آل انڈیا انا ڈی ایم کے ساتھ اتحاد کرکے ان جماعتوں کی ساکھ ہی ختم ہو چکی ہے۔
مودی نے جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کو زائل کرکے اسے قومی دھارے میں شامل کرنے کا ارادہ 1992 میں باندھا تھا جب وہ عسکری تحریک کے دوران قومی پرچم لہرانے کشمیر کے لال چوک میں پہنچے تھے۔
ان کے اس ارادے کو بھارت کے ہندوؤں نے جلا بخشی ہے۔ پہلے پانچ برسوں کی حکومت میں انہوں نے جنگجوؤں کا تقریباً خاتمہ کر ہی دیا ہے۔
بس اب آئین میں سے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 A کو ہٹانے کی دیر ہے۔ مودی نے نئے بھارت کا جو خواب دیکھا ہے اس میں دوسری سیاسی جماعتوں کا قائم رہنا انتہائی مشکل ہے۔
ہاں اگر دوسری تمام جماعتیں بھی مذہب کا لبادہ پہننا شروع کریں گی تو ہو سکتا ہے کہ وہ مودی کی بی جے پی کو ہرانے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس کے لیے انہیں شاید مزید پانچ سال کا انتظار کرنا پڑے گا۔