محلے والوں کی تضحیک بھری نظریں، معاشرے کے بہتان، پولیس سے روازنہ کی بنیاد پر بات چیت، وکیلوں کے ترلے ڈالنا، کچہریوں کے آئے دن چکر، اور سب سے بڑھ کر کسی تنگ، گندی جیل میں قید آپ کے پیارے کا آپ کو آس بھری نظروں سے دیکھنا۔
یہ سب ایسے تجربات ہیں جو کسی سخت سے سخت شخص کو بھی ہلا کر رکھ دیں۔ مگر پاکستان میں سینکڑوں خواتین ایسی ہیں جو اس سب کو سہتے ہوئے روز اپنے بے گناہ پیاروں کو پھانسی کے پھندے سے بچانے یا ان کی رہائی کے لیے کوششوں میں بے یار و مددگار لگی رہتی ہیں۔
دنیا بھر میں 10 اکتوبر سزائے موت کے خلاف آگاہی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کا آغاز 19 سال پہلے بین الاقوامی ادارے ورلڈ کولیشن نے کیا تھا جس کے بعد دنیا بھر میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے بھی اسے اپنا لیا۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان (جے پی پی) ایک ایسا ہی ادارہ ہے جو پاکستان میں قیدیوں کے حقوق پر کام کرتا ہے۔ اس کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی مختلف جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی کل تعداد 3831 ہے جن میں خواتین قیدی 29 ہیں اور باقی مرد ہیں۔ سب سے زیادہ سزائے موت کے قیدی پنجاب کی جیلوں میں ہیں جن میں 23 خواتین اور 2879 مرد ہیں۔ اور سب سے کم بلوچستان میں ہیں جن میں کوئی خاتون نہیں جبکہ 47 مرد سزائے موت کے قیدی ہیں۔
جے پی پی کی لیگل ٹیم کے مشاہدے کے مطابق سزائے موت کے قیدیوں کو جیل سے رہائی دلوانے کی جدوجہد میں زیادہ تر ان کے گھر کی خواتین پیش پیش ہوتی ہیں۔ ایسی ہی تین خواتین کی داستان ہم آپ کو سنائیں گے جنہوں نے اپنے پیاروں کو سزائے موت سے بچانے کے لیے اپنا سب کچھ گنوا دیا۔
صاحبہ سلطان، ہمشیرہ اقبال رانجھا
’میں نے قسم کھائی تھی کہ جب تک بھائی جیل سے نہیں چھوٹے گا تب تک میری کلائیاں چوڑیوں سے خالی رہیں گی۔ اسے جیل سے رہا ہونے میں اتنے برس لگ گئے کہ چوڑیاں پہننے کی عمر ہی نکل گئی۔ لیکن شکر ہے کہ وہ سزائے موت سے بچ گیا اور عدالت نے اسے بری بھی کر دیا لیکن اس سب میں ہماری عمریں بھی نکل گئیں اور زندگی کا اثاثہ بھی۔‘
یہ کہنا تھا صاحبہ سلطان کا جو سزائے موت سے بچنے والے اقبال رانجھا کی بڑی بہن ہیں۔
اقبال رانجھا کا کیس آپ میں سے بہت سے قارئین کو یاد ہوگا۔ یہ وہی کیس ہے جس میں ایک نابالغ لڑکے اقبال رانجھا کو 1998 میں منڈی بہاؤالدین میں ایک بس کو لوٹنے کے دوران ایک شخص کو قتل کرنے کے الزام میں جیل ہوئی اور پھر موت کی سزا سنا دی گئی۔
پاکستان میں 2000 میں ’جووینائل جسٹس سسٹم آرڈنینس 2000‘ آیا جس کے تحت نابالغ ملزمان کو موت کی سزا نہیں سنائی جاسکتی تھی۔ اس کے باوجود اقبال رانجھا کا کیس چلتا رہا اور 2016 میں ان کی پھانسی کا حکم جاری ہوا جس کے بعد سوشل میڈیا پر اس فیصلے کے خلاف کافی شور مچا۔
جے پی پی نے تب اس کیس کو لڑنے کا فیصلہ کیا اور بالآخر اقبال رانجھا جون 2020 میں رہا ہو گئے۔ اقبال نے 22 سال پاکستان کی مختلف جیلوں میں گزارے۔ اس ساری جدوجہد میں اقبال کی بڑی بہن صاحبہ سلطان کا کردار سب سے زیادہ اہم تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے صاحبہ نے بتایا: ’اقبال میرا چھوٹا بھائی تھا لیکن میں نے اسے ہمیشہ اپنے بیٹے کی طرح سمجھا۔ اس لیے مجھے اس کے جیل میں جانے کی سب سے زیادہ تکلیف تھی۔ ہمارے والدین تو اقبال کے جیل میں ہونے کے دوران ہی دنیا سے چلے گئے اس لیے اسے رہائی دلوانے کی ذمہ داری مجھ پر تھی۔‘
صاحبہ نے بتایا کہ وہ پڑھی لکھی نہیں تھیں اور نہ ہی ان کے گھر میں کوئی ایسا بڑا موجود تھا جو اس کیس کی پیروی کرتا۔ اس لیے انہوں نے خود ہی ہمت پکڑی۔ ’میرے لیے جیل میں جا کر بھائی سے ملنا آسان نہیں تھا۔ کبھی پیسے نہ ہوتے تو ملاقات بھی نہ ہو پاتی۔ میں اپنے نومولود بچے کو لیے جیل جایا کرتی تھی بھائی کو کھانا پہنچانے۔ کئی بار تو عید تہوار پر بچوں کے کپڑے نہ بنا کر پیسے بچاتی کہ بھائی سے مل سکوں۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے بھائی کو مختلف جیلوں میں رکھا گیا۔ وہ پہلے منڈی بہاؤالدین پھر گجرانوالہ 11 برس رہے اور پھر دیگر شہروں میں۔ اور صاحبہ کے لیے یہ سفر کرنا آسان نہ تھا۔
پاکستان معاشرے میں خاتون کا جیل جانا اچھا نہیں سمجھا جاتا، لیکن صاحبہ کہتی ہیں کے شوہر، جو کھیتی باڑی کرتے تھے، یہ جانتے تھے انہیں اقبال کتنے عزیز ہیں اس لیے انہوں نے کبھی منع نہیں کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جب میں بھائی کو ملنے جاتی تھی تو میں اسے ہنس کر ملتی تھی تاکہ اس کا دل برا نہ ہو یا وہ پریشان نہ ہو لیکن ملاقات کے بعد میں باہر آکر زاروقطار روتی تھی۔ خدا سے گڑگڑا کر دعائیں مانگتی یہاں تک کہ اس کی رہائی کے لیے روزے رکھتی۔ مجھے ایک اللہ کا سہارا دکھائی دیتا تھا کیونکہ دنیا والوں سے امید ختم ہو گئی تھی۔ وکیل پیسے لیتے تھے مگر کام کوئی نہیں کرتے تھے۔ البتہ جب جے پی پی والوں کے بارے میں مجھے اقبال نے بتایا تو کچھ امید پیدا ہوئی اور ان کی مدد کے ساتھ اقبال جیل سے باہر آگئے۔‘
سزائے موت کے قیدی کی والدہ
لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں سزائے موت کے ایک قیدی کی والدہ 14 سالوں سے بیٹے کی رہائی کی منتظر ہیں۔
مریم نے بتایا: ’میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ دنیا میں ایسے بھی ہوتا ہے۔ ہم تو رل ہی گئے، گھر بک گیا، گھر کا سامان بک گیا یہاں تک کہ میں اپنے بچے کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش میں خود بیمار ہوگئی لیکن کوئی آسانی پیدا نہیں ہوئی۔‘
انہوں نے اصل نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی کیونکہ ان کے مطابق انہیں مخالفین سے خطرہ ہے۔
مریم کے بیٹے پر اوکاڑہ میں دوست کے قتل کا الزام ہے۔ مریم نے بتایا کہ ان کا بیٹا فیصل آباد سے اوکاڑہ اپنے دوستوں سے ملنے گیا وہاں آپس میں کوئی جھگڑا ہوا اور گولی چلی جو ان کے ایک دوست کو لگی، باقی دوست وہاں سے بھاگ گئے جبکہ ان کا بیٹا اس دوست کی مدد کے لیے وہاں رکا اور پولیس نے اسے ہی پکڑ لیا۔
بچے چھوٹے ہی تھے تو مریم کے شوہر کا انتقال ہوگیا، بڑا بیٹا ہی تھا جو نوکری کرتا تھا اور گھر کا خرچ چلاتا تھا، وہ بھی جیل چلا گیا۔
مریم کہتی ہیں: ’سب ختم ہو گیا۔ یہاں تک کہ سب قریبی عزیز و اقارب نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا۔ میں اکیلی عورت کچہریوں میں دھکے کھاتی تھی ہر طرف مرد ہی مرد دکھائی دیتے تھے لیکن کیا کرتی بیٹے کے لیے کوشش کرنا تھی۔‘
انہوں نے کہا: ’جتنے منہ اتنی باتیں۔ بہت سے وکیلوں نے ہم سے پیسے لیے کہ وہ کیس ختم کروا دیں گے۔ جج سے لکھوا لیں گے۔ میں پیسے دیتی رہی لیکن نتیجہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اب بھی میں رو رو کر وہ وقت یاد کرتی ہوں کہ یا اللہ یہ ہماری قسمت میں یہ کیا لکھا تھا؟ اب حالت یہ ہے کہ مجھ سے چلا نہیں جاتا۔ لیکن مجھے جیل جانا پڑتا ہے کیونکہ میرا بیٹا جیل میں بیمار ہے اسے ادویات اور کھانا پہنچانا پڑتا ہے کیونکہ وہ جیل کا کھانا کھا کر بیمار پڑ گیا ہے۔‘
ممتاز بی بی والدہ حنوک یوسف
حنوک یوسف ساہیوال کے رہائشی ہیں۔ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، گھروں میں رنگ کرنے کا کام کرتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہیں کھیلوں کا بھی شوق تھا۔ اس لیے باقائدگی سے جِم جاتے تھے۔ حنوک کی والدہ ممتاز بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سب کچھ ٹھیک تھا لیکن 2013 میں ایک دن اس کے جِم کے دوستوں نے ایک ڈکیتی اور قتل کی واردات کی۔ دونوں پکڑے گئے لیکن ان کے فون سے حنوک کا نمبر پولیس کو ملا جس پر آخری کال کی گئی تھی۔
پولیس نے شک کی بنیاد پر حنوک کو پکڑا، اسے حبس بیجا میں بھی کچھ عرصہ رکھا۔ والدہ کے مطابق اس پر اتنا تشدد کیا کہ جب وہ جیل سے رہا ہوا تو اس کی ایک ٹانگ خراب ہو چکی تھی۔
ممتاز بی بی نے بتایا کہ اس کیس میں حنوک کو دو افراد کے قتل کے الزام میں دو مرتبہ سزائے موت سنائی گئی۔ ’میرے شوہر محنت مزدوری کے قابل نہیں تھے۔ جب حنوک جیل چلا گیا تو گھر کا کمانے والا چلا گیا۔ مجھے اسے ہر حال میں جیل سے باہر لانا تھا۔ میں نے گھروں کے کام کاج کر کے کچھ پیسے بنائے۔ دن رات کام کرتی، عدالتوں کے چکر لگائے۔ لوگوں سے ادھار پکڑے وکیل کیا اور تب کہیں جاکر 2019 میں ہم اس کو بے گناہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے۔‘
اور لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ نے 2019 میں حنوک کو باعزت بری کر دیا۔ لیکن اس سب میں ان کے خاندان نے بہت کچھ کھو دیا۔ ’میں پڑھی لکھی بھی نہیں تھی نہ کوئی مدد گار تھا لیکن پھر میں نے کورٹ کچہری کو سمجھنا شروع کیا کیونکہ مجھے اپنے بیٹا واپس چاہیے تھا۔‘
خواتین کو اپنے پیاروں کو چھڑوانے میں کیا مشکلات پیش آتی ہیں؟
جے پی پی کی ایڈوکیٹ زینب کہتی ہیں: ’ہم نے عام طور پر ان قیدیوں کی بہنیں، بیویاں، یا مائیں ہی دیکھی ہیں جو اپنے خاوند یا بچوں کے کیس کی پیروی کر رہی ہوتی ہیں۔ اس میں ایک مشاہدہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں سزائے موت کے بیشتر قیدیوں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے اس لیے ان خواتین کے لیے سب سے پہلا مسئلہ تو پیسوں کا ہوتا ہے کہ وہ کوئی اچھا وکیل کر سکیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ دوسرا اہم مسئلہ ہے کہ اکثر ایسی متاثرہ خواتین زیادہ پڑھے لکھی بھی نہیں ہوتیں کہ وہ تمام قانونی پیچیدگیوں کو سمجھ سکیں۔ اس لیے انہیں جیسا وکیل ملتا ہے وہ اپنی ساری جمع پونجی ان کے حوالے کر دیتی ہیں اس امید سے کہ وہ ان کے پیارے کو رہائی دلوائے گا۔
ایڈوکیٹ زینب نے کہا: ’ افسوس کی بات ہے کہ یہ خواتین ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم، پولیس اور وکیلوں میں پھنس کر رہ جاتی ہیں۔ ہم نے خود دیکھا کہ لوگوں کے گھر اور خواتین کے زیور تک بک جاتے لیکن پھر بھی انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا المیہ ہے کہ اگر آپ ایک مرتبہ جیل چلے گئے ہیں تو آپ پر چھاپ لگ جاتی ہے کہ فلاں کا خاوند یا بیٹا جیل چلا گیا ہے۔ ان خواتین کو یہ تذلیل بھی جھیلنی پڑتی ہے اور اس سب کو جھیلنا بذات خود ایک جدوجہد سے کم نہیں۔
ایڈوکیٹ زینب کے بقول: ’اگر دوسری جانب دیکھیں تو بیشتر ایسی خواتین جنہیں سزائے موت ہوئی ہو وہ چاہے ماں ہو بیٹی یا بیوی، سب سے پہلے ان کے گھر والے ان کو چھوڑ دیتے ہیں ان کی پیروی کرنے کم ہی لوگ آتے ہیں۔ یہ بھی ایک ناانصافی ہے اور یہ اپنے اندر ایک الگ جدوجہد ہے کہ خواہ وہ خود مجرم ہوں یا ان کا کوئی پیارا، بھگتنا ہمیشہ خواتین کو ہی پڑتا ہے۔‘
جے پی پی کے ذریعے سزائے موت کے کتنے قیدی رہا ہوئے؟
انہوں نے بتایا کہ 2014 سے اب تک جے پی پی متعدد قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد عدالتوں کے ذریعے رکوا چکا ہے۔
ان کے مطابق ادارے کی کوششوں سے گذشتہ دو برس کے دوران سزائے موت کے چار قیدیوں کو براہ راست فائدہ پہنچا ہے اور ان کی رہائی ممکن ہوئی ہے، ان میں سے ایک اقبال رانجھا بھی ہیں۔
ایڈوکیٹ زینب کے مطابق ان مقدمات میں ہونے والے فیصلے آئندہ ایسے مقدمات میں نظیر کے طور پر استعمال ہوں گے جس کا فایدہ کئی ذہنی بیمار اور نابالغ قیدیوں کو ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ کبھی کبھار یہ ہوتا ہے کہ کچھ کیسز میں متاثرہ خاندان اللہ کے نام پر مجرم کو معاف کر دیتے ہیں لیکن ہمارے لوگ انصاف لینے کے دائرے میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔
’جیسے اقبال رانجھا کے کیس میں ان پر دہشت گردی کا چارج تھا اسی لیے بے شک انہیں متاثرہ خاندان نے معاف کر دیا تھا لیکن اس چارج کی وجہ سے انہوں نے ایک لمبہ عرصہ جیل میں گزار دیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے 2021 میں تین سزائے موت کے قیدیوں کو رہائی دلوائی جس میں ایک کنیزاں بی بی اور امداد علی تھے، جن دونوں کا دماغی توازن درست نہیں تھا۔ ایڈوکیٹ زینب کے مطابق ان دونوں کی سزائے موت کو پہلےعمر قید میں تبدیل کیا گیا لیکن پھر رہا کر دیا گیا کیونکہ ان میں سے ایک 28 برس جبکہ دوسرے 30 برس سے جیل میں تھے اس لیے عدالت نے انہیں یہ کہہ کررہا کر دیا کہ وہ پہلے ہی عمر قید سے زیادہ سزا بھگت چکے ہیں۔
انہوں نے ایک اور شخص محمد انور کا بھی ذکر کیا جو جرم کے وقت نابالغ تھے اور 28 برس جیل کاٹنے کے بعد ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرکے عدالت نے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔
ایڈووکیٹ زینب کہتی ہیں کہ ان کے علاوہ ان کے پاس بہت سے سزائے موت کے ایسے کیسز ہیں جن میں جے پی پی نے فیصلوں پر عدالت سے سٹے لے کر ان کے لیے رحم کی اپیلیں فائل کی ہوئیں ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ جے پی پی صرف ان کیسز کی پیروی کرتا ہے جن کی جانچ پڑتال کے بعد اس کے اراکین کو لگتا ہے کہ ان لوگوں کو سزائے موت کبھی ملنی ہی نہیں چاہیے تھی، جیسے انور یا اقبال جو جرم کے وقت نابالغ تھے، یا کنیزاں بی بی اور امداد کا کیس جن کی ذہنی حالت درست نہیں تھی اسی لیے انہیں جرم کے وقت یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق ان قیدیوں کے کیس بھی لیے جاتے ہیں جن کی ذہنی حالت جیل میں رہ کر بگڑ گئی ہو اور انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ انہیں کیوں اور کیا سزا مل رہی ہے۔ ’ایسے ہی ایک دو کیسز تھے جن میں قیدیوں کا دماغی توازن بگڑ چکا تھا اور ان کی سزائے موت سے پہلے آخری ملاقات کے وقت وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے گھر والے انہیں واپس لے جانے آئے ہیں۔ ایسے انسان کو آپ کیا سزا دیں گے؟‘
زینب کہتی ہیں بہت سے ممالک نے پھانسی کی سزا کو ختم کر دیا ہے جبکہ پاکستان میں پھانسی کی سزا کبھی ختم نہیں کی گئی ہاں البتہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کسی کو سزائے موت نہیں دی گئی جو کہ اس وقت ان کی حکومت کا سیاسی فیصلہ تھا۔ لیکن 2014 میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت میں سزائے موت پر دوبارہ عمل شروع کیا گیا اور یہ فیصلہ پشاور میں اے پی ایس پر دہشت گردی کے حملے کے بعد ہوا تھا۔
انہوں نے کہا اس وقت کہا گیا تھا کہ پھانسیاں صرف دہشت گردوں کو دی جائیں گی لیکن پھر سزائے موت پر عمل سب کے لیے شروع کر دیا گیا تھا، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی اس سزا کو ختم کر دیا جائے۔