خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں افغان بہن بھائی ’غیر قانونی‘ طریقے سے پاکستان آتے ہوئے پہاڑی سے گر کر ہلاک ہوگئے، جن کا جنازہ پہاڑی پر ہی ادا کرکے دونوں کو وہیں دفنا دیا گیا۔
یہ واقعہ گذشتہ روز اس وقت پیش آیا جب یہ بہن بھائی اپنے خاندان سمیت ’غیر قانونی‘ طریقے سے پاکستان اور افغانستان کو کرم میں ملانے والے بارڈر کی بلند پہاڑی کوہ سفید کو خر ولی کنڈاؤ کے مقام سے پار کرنے کی کوشش کرکے پاکستان میں داخل ہونا چاہتے تھے۔
اپر کرم کے ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ بہن بھائی بلند پہاڑی سے نیچے گر کر ہلاک ہوئے۔
اہلکار نے بتایا: ’دونوں کی لاشیں اس پہاڑی پر کام کرنے والے سافٹ سٹون کے کان کنوں کو ملی تھیں، جن کا جنازہ پہاڑ پر ہی ادا کیا گیا اور وہیں پر انہیں دفنا دیا گیا کیونکہ اس پہاڑی سے لاشوں کو واپس افغانستان لے جانا ممکن نہیں تھا۔‘
قبائلی ضلعے کی افغانستان کے ساتھ چار قانونی کراسنگ ہیں، جن میں خرلاچی، شہیدان ڈنڈ، بورکی اور تری منگل شامل ہے۔ ان میں خرلاچی بڑا کراسنگ پوائنٹ ہے۔ ضلع کرم کی حدود افغان صوبوں خوست، پکتیا اور پاڑہ چنار میں افغانستان کے صوبے ننگرہار سے جا ملتی ہے۔
مذکورہ اہلکار نے بتایا کہ کرم کے پہاڑی علاقوں میں افغان شہری غیر قانونی طریقے سے بارڈر کراس کرکے پاکستان میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔
ضلع کرم کے پولیس سربراہ طاہر اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جس پہاڑی کی بات ہورہی ہے، وہ انتہائی اونچائی پر واقع ہے جہاں پر ابھی تک بہت زیادہ اونچائی کی وجہ سے باڑ بھی نہیں لگائی گئی۔‘
تاہم ان سے جب افغان بہن بھائی کی ہلاکت کے حوالے سے پوچھا گیا تو وہ اس واقعے سے بے خبر تھے۔
طاہر اقبال نے بتایا: ’ہمارے پاس سرکاری طور پر اس حوالے سے تفصیلات نہیں ہیں لیکن شاید یہ واقعہ افغانستان کی حدود میں پیش آیا ہو، لیکن یہ پہاڑی بہت اونچائی پر ہے اور وہاں پر پولیس کا جانا بہت مشکل ہے۔‘
اس واقعے کی تصاویر اور ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پہاڑی پر ان افراد کا جنازہ ادا کیا جا رہا ہے۔
اپر کرم کے پولیس اہلکار کے مطابق افغان بہن بھائی کو پہاڑی پر موجود سافٹ سٹون کی کانوں میں کام کرنے والوں مزدوروں نے دفن کیا ہے۔
کرم میں سافٹ سٹون نکالنے کی کانیں موجود ہیں۔ ایک کان میں کام کرنے والے ٹھیکے دار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب سے افغانستان پر طالبان نے کنٹرول حاصل کیا ہے تو افغانستان سے غیر قانونی طریقے سےافغان شہری پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بہن بھائی اپنے خاندان سمیت پاکستان میں اسی پہاڑی راستے سے داخل ہو رہے تھے کہ دشوار گزار راستے کی وجہ سے بھائی بہن پہاڑی سے گر کر ہلا ک ہوگئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’ گرنے کے بعد ان کے خاندان کے کچھ افراد نیچے ہمارے مزدوروں سے ملنے آئے اور بتایا کہ ہمارے کچھ ساتھی پہاڑی سے گر کر زخمی ہوگئے ہیں، ہمیں مدد چاہیے، جس کے بعد ہمارے مزدور اور کچھ مقامی افراد ان کے ساتھ گئے لیکن وہ بہن بھائی ہلاک ہوچکے تھے۔‘
ٹھیکے دار کے مطابق اس کے بعد مزدوروں اور مقامی افراد نے وہیں پر جنازہ ادا کیا اور اسی پہاڑی پر انہیں دفنا دیا گیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ میتوں کو واپس افغانستان کیوں نہیں لے جایا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جہاں پر یہ واقعہ ہوا ہے، وہاں سے افغانستان واپسی کا راستہ بہت زیادہ ہے اور لاشیں لے جانا بہت مشکل کام تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب اس پہاڑی سے غیر قانونی طریقے سے لوگ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں تو تقریباً دس کلومیٹر تک کے فاصلے پر سینٹرل کرم کا علاقہ ’وچہ درہ‘ واقع ہے، جہاں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چیک پوسٹ موجود ہے۔ ٹھیکے دار نے بتایا کہ وہاں ہر کسی سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور چیک پوسٹ سے کراس کرنے والے غیر مقامی افراد (یعنی وہ افراد جو اس خاص گاؤں کے نہ ہوں) کے لوگوں کی انٹری بھی کی جاتی ہے۔
ٹھیکے دار نے بتایا: ’اسی انٹری پوائنٹ سے بچنے کے لیے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے لوگ پہاڑی راستے کا انتخاب کرتے ہیں، جہاں کچھ رپورٹس کے مطابق وہاں کے مقامی افراد ان سے پیسے لے کر انہیں پاکستان میں داخل کروانے میں مدد کرتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب یہ لوگ وچہ درہ انٹری کو پہاڑی راستے سے کراس کرتے ہیں تو یہ آسانی سے پاڑہ چنار اور صدہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ پاڑہ چنار ضلع کرم کا صدر مقام ہے جبکہ صدہ ضلع کرم کی بڑی تجارتی مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔
افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ہزاروں افراد افغانستان سے نکل گئے ہیں اور کچھ اب بھی وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہی٘ں۔ افغانستان میں رہنے والوں کے لیے ایک آپشن پاکستان میں داخل ہونا ہے تاہم افغانستان اور پاکستان کے بڑے کراسنگ پوائنٹس جن میں طورخم اور چمن بھی شامل ہے، عام افراد کے لیے بند ہے۔
ان بارڈرز کے ذریعے افغانستان سے پاکستانی وطن واپس آسکتے ہیں اور پاکستان سے افغان شہری واپس جاسکتے ہیں، اگر ان کے پاس سفری دستاویزات موجود ہوں۔ اسی وجہ سے کچھ افغان شہری غیر قانونی طریقےسے بارڈر کراس کرکے پاکستان داخل ہوتے ہیں۔