آئے دن میڈیا پر خبریں شائع ہوتی ہیں کہ ڈاکٹروں کا مریض سے جھگڑا ہوگیا۔ پولیس بلوائی گئی اور مریض نے علاج میں غفلت کو بنیاد بنا کر ڈاکٹر کے خلاف رپورٹ کر دی۔
اس تحریر کا ہرگز یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ انڈپینڈنٹ اردو ڈاکٹروں کی علاج میں غفلت کی کسی بھی طرح حمایت کرتا ہے۔ بس ایک پہلو ہے جس پر شاید کوئی سوچتا نہیں کہ ہوسکتا ہے کہ اس غفلت کے پیچھے کوئی وجہ ہو۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور مریضوں کے جھگڑوں اور ڈاکٹروں کی جانب سے علاج میں ہونے والی غفلت کی کئی وجوہات میں سے ایک ڈھونڈ نکالی ہے اور وہ ہے ڈاکٹروں کے ڈیوٹی کے طویل اوقات اور ان کی نیند پوری نہ ہونا۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ یہ مسیحاؤں اور مریضوں میں لڑائی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔
میو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں روزانہ سینکڑوں مریض آتے ہیں جن میں سے کچھ کی حالت تشویش ناک اور کچھ معمولی چوٹوں یا نزلہ، زکام اور بخار کے ساتھ آتے ہیں۔
اسی ہسپتال سے منسلک ڈاکٹر وردہ شادی شدہ ہیں اور ان کی تین ماہ کی ایک بیٹی ہے، جسے وہ ڈیوٹی پر آتے ہوئے اپنی امی کے پاس چھوڑ کر آتی ہیں۔
وردہ نے بتایا کہ اکثر انہیں 24 گھنٹے سے بھی زیادہ ڈیوٹی دینی پڑتی ہے جس کے بعد ان میں مریض کے بارے میں صحیح فیصلہ کرنے کی ہمت ختم ہو جاتی ہے۔
وردہ کہتی ہیں کہ ’نئے قوانین کے مطابق آپ ایمرجنسی وارڈ میں کچھ کھا پی بھی نہیں سکتے، جس کی وجہ سے انہیں بھوکے پیاسے کام کرنا پڑتا ہے۔ ان کی والدہ تو اب طنز کرتی ہیں کہ پہلے انہیں پالا اور اب ان کا بچہ بھی وہی پال رہی ہیں۔‘
وردہ عید پر بھی ڈیوٹی کریں گی اور اس بار وہ لاہور سے باہر اپنے سسرال نہیں جا پائیں گی۔ دوسری طرف انہیں سسسرالیوں نے اپنی نوکری کو خیرباد کہنے کا مشورہ بھی دے دیا ہے۔
میو ہسپتال کے وارڈز جہاں مریضوں سے بھرے رہتے ہیں وہیں وارڈز میں ڈاکٹروں کی چہل پہل رہتی ہے۔ ان میں سے کچھ تو بالکل فریش جبکہ کچھ بالکل سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے سٹاف روم میں چلے جائیں تو ڈبل ڈیکر بیڈ کی اوپر کی منزل پر ڈاکٹروں کا سامان پڑا دکھائی دیتا ہے جیسے کسی ٹرین کے ڈبے کی برتھ ۔ دوسری جانب بستر کی نچلی منزل پر ایک دو ڈاکٹر سوئے ہوئے بھی نظر آجاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پاکستان کے سیکرٹری ڈاکٹر سلمان کاظمی کے مطابق: ’ڈاکٹروں کے رویے میں تبدیلی، ان کا چڑ چڑا ہو جانا اور ہسپتالوں میں لڑائی جھگڑے کی بہت بڑی وجہ ڈاکٹروں پر کام کا دباؤ زیادہ ہونا ہے۔ ان کی نیند پوری نہیں ہوئی ہوتی، جس کے باعث ان کا رویہ تبدیل ہوجاتا ہے، لیکن نہ تو حکومت اور نہ ہی سینیئر ڈاکٹر اس بارے میں سوچ رہے ہیں۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا ہسپتالوں میں علاج کے دوران غفلت، لڑائی جھگڑے اور فساد ختم نہیں ہو سکتا۔‘
ڈاکٹر سلمان نے مزید بتایا: ’بہت سارے ایسے کیسز بھی سامنے آئے، جس میں ڈاکٹر آپ کو بیٹھا ہوا نظر آرہا ہے، اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں مگر اس کا دماغ سویا ہوا ہے۔ تین سال میں ہمارے کم از کم چار ڈاکٹرز کی موت ہوچکی ہے جو رات کی ڈیوٹی کرکے صبح گھر جاتے ہوئے گاڑی چلاتے چلاتے سوگئے اور ایکسیڈنٹ کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے۔‘
اسی طرح ڈاکٹر آمنہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ نے 30 گھنٹے کام کیا ہو اور آخری 30 منٹ میں جو آپ کے پاس مریض آرہے ہیں وہ سٹروک کے ہوں اور نیند کے مارے آپ کی آنکھ ہی نہیں کھل رہی تو آپ ان کے لیے کیسے صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں؟ ان کے خیال میں ڈاکٹروں کے کام کے اوقات زیادہ یا کم نہیں بلکہ ڈاکٹر اور مریض کے لیے محفوظ ہونے چاہیں۔‘
یورپی ممالک میں پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹروں کے لیے ایک ہفتے میں 42 گھنٹے کام کرنے کا قانون لاگو ہے جبکہ پاکستان میں ڈاکٹروں کے اوقات کار کچھ یوں ہیں۔ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے مطابق ایک ہفتے میں ایک ڈاکٹر 80 گھنٹے کام کرے گا جبکہ محکمہ صحت پنجاب کے مطابق ایک میڈیکل آفیسر ہفتے میں 36 گھنٹے کام کرے گا مگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ حالات اس کے برعکس ہیں۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر ارشاد حسین کہتے ہیں کہ ’اب ایسا نہیں ہے کہ ڈاکٹر کم اور مریض زیادہ ہوں۔ ان کی تعداد بالکل ٹھیک ہے۔ ڈیوٹی آورز آرام سے ایڈجسٹ ہوسکتے ہیں مگر ابھی کچھ سینئیرز کا اختلاف ہے کیونکہ پرانے زمانے میں ایسا ہوتا رہا ہے، وارڈ ویک لگتے تھے یا کچھ لوگ 36 گھنٹے ڈیوٹی کرتے تھے۔ کچھ ڈاکٹرز اسی کو فولو کرکے اسی طرح کے اوقات کار کو چلانا چاہ رہے ہیں ۔ اب برطانیہ اور امریکہ میں بھی یہ تبدیل ہوگیا ہے تو امید ہے یہاں بھی جلد یہ نارمل آورز پر آجائے گا۔‘
وارڈز میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ اکثر اوقات جب وہ رات میں ہسپتال سے نکلتے ہیں تو ان کی حالت کسی ’زومبی‘ سے کم نہیں ہوتی مگر اس زومبی کو کسی انسان کی نہیں بلکہ ایک نرم ملائم بستر کی تلاش ہوتی ہے جس پر وہ گرے اور سو جائے۔