برطانوی رکن پارلیمان کا قتل دہشت گردی قرار، ملزم حراست میں

ووٹروں سے ملاقات کے دوران پانچ سالوں میں دوسرے رکن پارلیمان، سر ڈیویڈ امیس، کے قتل کے بعد عوام کے نمائندوں کی سکیورٹی بڑھانے کے مطالبے بھی سامنے آ رہے ہیں۔

برطانیہ میں پولیس نے رکن پارلیمان سر ڈیوڈ امیس کے قتل کو دہشت گردی قرار دے دیا ہے، جبکہ ووٹروں سے ملاقات کے دوران پانچ سالوں میں دوسرے رکن پارلیمان کے قتل کے بعد عوام کے نمائندوں کی سکیورٹی بڑھانے کے مطالبے بھی سامنے آ رہے ہیں۔

کنزرویٹیو پارٹی کے تجربہ کار رکن پارلیمان 69 سالہ سر ڈیویڈ امیس جمعے کو مشرقی لندن کے چھوٹے قصبے لے آن سی میں ایک گرجا گھر میں ووٹروں سے ملاقات کر رہے تھے کہ ایک چاقو بردار شخص نے ان پر حملہ کر دیا، جس میں وہ بچ نہ سکے۔  

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ایک 25 سالہ ملزم کو گرفتار کیا ہے اور  حملے کے  ’اسلامی انتہا پسندی سے منسلک‘ ہونے پر تحقیقات کر رہے ہیں۔

پولیس کے مطابق تحقیقات ابھی ’بہت ابتدائی مراحل‘ میں ہیں، تاہم برطانیہ کے کئی میڈیا اداروں نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ ملزم صومالی نژاد برطانوی شہری ہے۔

برطانیہ کے سیاست دان اس قتل سے صدمے میں ہیں، جس نے پانچ سال قبل ایک اور قانون ساز کے قتل کی یاد تازہ کر دی ہے۔

یورپی یونین میں رہنے کی حامی لیبر پارٹی کی رکن پارلیمان جو کاکس کو 2016 میں ایک انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند نے مار ڈالا تھا۔ اس قتل کے بعد بھی اراکین پارلیمان نے عوامی نمائندوں کے خلاف عوامی بدسلوکی اور دھمکیوں کی ’بڑھتی ہوئی لہر‘ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

قانون سازوں کو تشویش

جو کاکس کی بہن کم لیڈبیٹر ان ہی کے حلقے سے اسی سال رکن پارلیمان منتخب ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیویڈ امین کی موت نے انہیں خوف زدہ‘ کر دیا ہے۔ ’ہم یہ خطرہ مول لے رہے ہیں اور اس سے بہت سے قانون ساز ڈر گئے ہوں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیبر کے رکن پارلیمان کرس برائنٹ نے دا گارڈین میں لکھا کہ اراکین پارلیمان کی سکیورٹی کے لیے پارلیمان اور حلقوں میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے، خاص طور پر حلقوں میں جہاں وہ اکثر گرجا گھروں اور دفاتر میں ووٹروں سے ملتے ہیں۔

انہوں نے لکھا: ’ہم قلعوں میں نہیں رہنا چاہتے۔ مگر ایک اور ساتھی کو ایسے کھونا نہیں چاہتا۔‘

وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے جمعے کو پولیس کو ہدایت جاری کی کہ وہ تمام 650 اراکین پارلیمان کی سکیورٹی کا جائزہ لے۔

اراکین پارلیمان اور ان کے عملے پر ماضی میں بھی حملے ہو چکے ہیں مگر یہ زیادہ عام نہیں۔

تاہم ان کے تحفظ کی ضرورت بریگزٹ کے بعد اور بھی زیادہ پڑ گئی جس سے ملک کو یورپی یونین سے باہر نکالنے کے ساتھ ساتھ سیاسی تقسیم کو بھی ہوا دی۔

جو کاکس کے قاتل نے ان پر چاقو سے وار کرنے سے قبل ’برطانیہ پہلے‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ وہ بھی لیڈز میں اپنے حلقے میں ایک اجلاس میں حصہ لے رہی تھیں۔  

اس حملے کے بعد اراکین کو دھمکیوں کی تحقیقات کے لیے بننے والے پولیس کے شپیشلسٹ یونٹ کے مطابق 2016 سے 2020 کے درمیان قانون سازوں کے خلاف 678 جرم رپورٹ ہوئے۔ ان میں زیادہ تر دھمکی آمیز پیغامات تھے، جبکہ کچھ ہراسانی اور دہشت گردی پر بھی مبنی تھے۔

دیگر اعدادوشمار میں 2018 سے ایسی رپورٹس میں اضافے کی بھی رپورٹس ہیں، خاص کر جان کی دھمکیوں کی۔

سابق رکن پارلیمان کنزرویٹیو پارٹی کی اینا سوبری کہہ چکی ہیں کہ انہیں اور ان کے خاندان کو دھمکایا گیا اور گولیاں بھیجی گئیں۔

امیس خود بھی آن لائن بدسلوکی اور عوامی ہراسانی کے مشاہدے کا ذکر کر چکے تھے۔

گذشتہ سال چھپنے والی کتاب ’آئیز اینڈ ایئرز: اے سروائورز گائیڈ ٹو ویسٹ منسٹر‘ میں انہوں نے لکھا: ’ان بڑھتے ہوئے حملوں نے لوگوں کے اپنے منتخب نمائندوں سے عام ملاقات کی روایت کو خراب کر دیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا