سابق پاکستانی سفارت کار کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل کے مقدمے کے ملزمان نے اپنے وکلا کے ذریعے مقدمے کے اندراج کے طریقہ کار اور واقعات کی ترتیب پر سوالات اٹھاتے ہوئے ایف آئی آر اور مدعی کی درخواست (استغاثہ) کو ’من گھڑت‘ قرار دینے کی کوشش کی ہے۔
ملزمان کے وکلا نے ایف آئی آر ہاتھ سے لکھے جانے، اس کے لکھنے میں دو مختلف قلم استعمال ہونے اور اس میں وقوعہ کا وقت موجود نہ ہونے جیسے اعتراضات اٹھائے ہیں۔
نور مقدم قتل کیس کی باقاعدہ سماعت بدھ کو اسلام آباد کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج محمد عطا ربانی کی عدالت میں شروع ہوئی۔ تھانہ کوہسار میں تعینات سینیئر اے ایس آئی رضا محمد استغاثہ کے پہلے گواہ کے طور پر پیش ہوئے۔
اس موقع پر ملزمان کے وکلا نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایف آئی آر عدالت میں استغاثہ کے گواہ کی حیثیت سے بیان دینے والے پولیس افسر نے خود درج نہیں کی، بلکہ ’ایسا کسی اور کے کہنے پر کیا گیا۔‘
مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت دیگر زیر حراست ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا، جبکہ ضمانت پر رہا مرکزی ملزم کی والدہ عصمت جعفر اور تھیراپی ورکس کے چھ اہلکار بھی وہاں موجود تھے۔
مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے گذشتہ سماعتوں کی طرح بدھ کو بھی عدالت میں آتے ہی جج کو مخاطب کرنے کی کوشش کی، جس پر انہیں بار بار روکا گیا۔
ظاہر جعفر، جو پہلی چند پیشیوں میں نہایت بری حالت میں نظر آتے رہے ہیں، بدھ کی ہونے والی سماعت میں سبز رنگ کا سوئیٹر اور پتلون پہنے نسبتاً زیادہ پرسکون اور مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔
کارروائی کے دوران عدالت کی طرف سے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو مہیا کردہ وکیل شہریار نواز خان نے جج کو بتایا کہ ان کی ابھی تک اپنے موکل سے بات نہیں ہو سکی ہے اس لیے وہ عدالت کی کارروائی میں حصہ لینے سے قاصر ہیں۔
ایڈیشنل اینڈ سیشن جج محمد عطا ربانی نے انہیں مرکزی ملزم ظاہر جعفر سے ملنے کی ہدایت کی اور شہریار نواز خان نے کمرہ عدالت ہی کے ایک کونے میں ظاہر جعفر سے مختصر گفتگو کی، جس کے دوران انہوں نے اپنے موکل سے وکالت نامے پر دستخط بھی لیے۔
بعد ازاں ظاہر جعفر نے عدالت سے جاتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے مختصر گفتگو بھی کی جس میں انہوں نے کہا کہ وکیل نے ان سے کیس کی فائل کے متعلق پوچھا ’اور میں نے انہیں بتا دیا ہے۔‘
اس سے قبل تھانہ کوہسار کے سینیئر اے ایس آئی محمد رضا نے اپنے بیان میں کہا کہ 20 جولائی کی رات وہ تھانے میں جنرل ڈیوٹی پر تھے جب انہیں رات 11 بجے سب انسپکٹر عابد لطیف کے ذریعے نور مقدم کیس کا استغاثہ موصول ہوا اور انہوں نے ایف آئی آر درج کر لی، اور کیس مزید کارروائی کے لیے پولیس کے متعلقہ محکمے کو بھیج دیا۔
سینیئر اے ایس آئی محمد رضا کے مختصر بیان کے بعد ملزمان کے وکلا محمد اکرم قریشی، اسد جمال اور عباسی ایڈوکیٹ نے استغاثہ کے گواہ پر جرح کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
استغاثہ کے گواہ پر جرح ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ تھیراپی ورکس کے سربراہ کے وکیل محمد اکرم قریشی نے عدالت میں موجود مقدمے کے مدعی سابق پاکستانی سفارت کار شوکت مقدم کو کمرہ عدالت سے باہر بھیجنے کی استدعا کی۔
انہوں نے کہا کہ شوکت مقدم اس مقدمے میں خود ایک گواہ ہیں اور انہیں دوسرے گواہوں پر ہونے والی جرح کے درمیان موجود رہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
جس پر سابق پاکستانی سفارت کار شوکت مقدم جج محمد عطا ربانی کے کہنے پر دوسرے ملزمان کے ساتھ کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔
محمد اکرم قریشی نے استغاثہ کے پہلے گواہ سے سوالات میں انہیں وقوعہ سے متعلق اطلاع ملنے، کس کے ذریعے ملنے، کس وقت موصول ہونے اور ان تمام واقعات کا تھانہ کوہسار کے روزنامچے میں اندراج ہونے سے متعلق دریافت کیا۔
اسی طرح انہوں نے سینیئر اے ایس آئی سے پوچھا کہ ایف آئی آر سرکاری ہدایات کے برعکس کمپیوٹر کے بجائے ہاتھ سے کیوں لکھی گئی تھی، جس پر محمد رضا نے کہا: ’ہمارا طریقہ یہی ہے کہ پہلے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر اسے کمپیوٹر پر لکھا جاتا ہے۔‘
محمد اکرم قریشی ایڈوکیٹ نے گواہ سے دریافت کیا کہ انہیں اس واقعے کی پہلی اطلاع کس نے دی اور تھانے کے ایس ایچ او کو کس نے بتایا، جس پر محمد رضا نے جواب دیا کہ اتنے اہم مقدمے کی صورت میں تھانے کا سارا سٹاف کام کر رہا ہوتا ہے۔
انہوں نے گواہ سے مزید پوچھا: ’کیا یہ کہنا درست ہو گا کہ یہ ایف آئی آر آپ نے خود نہیں لکھی اور نہ ہی اس کے نیچے موجود دستخط آپ کے ہیں؟‘
اس کے جواب میں استغاثہ کے گواہ سینیئر اے ایس آئی محمد رضا نے انکار کیا۔
محمد اکرم قریشی کے نور مقدم کے قتل کے وقت سے متعلق سوال پر گواہ نے کہا کہ ایسا رات کے 10 بجے ہوا، جس پر وکیل نے کہا کہ 10 بجے آپ کو اطلاع ملی تھی، لیکن قتل کس وقت ہوا اس کو آپ کو علم نہیں ہے۔
ملزمان کے وکلا میں سے عباسی ایڈوکیٹ نے گواہ سینیئر اے ایس آئی محمد رضا سے دریافت کیا کہ ہاتھ سے لکھی گئی ایف آئی آر پر لکھا ایک نمبر الگ قلم سے کیوں لکھا گیا ہے، جس سے گواہ نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
عباسی ایڈوکیٹ نے مزید پوچھا: ’کیا آپ تھانے اطلاع پہنچنے سے پہلے مدعی (شوکت مقدم) سے ملے تھے؟‘ جس کا گواہ نے نفی میں جواب دیا۔
ملزمان کے وکلا نے استغاثہ کے پہلے گواہ تھانہ کوہسار کے سینیئر اے ایس آئی محمد رضا پر جرح کے بعد عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ ’ایف آئی آر اور استغاثہ کا بیان دونوں من گھڑت ہیں، اور اسی لیے ایف آئی آر کمپیوٹر کے بجائے ہاتھ سے لکھی گئی، اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ یہ ایف آئی آر اس گواہ نے خود لکھی ہے بلکہ یہ سینیئر افسران کے کہنے پر لکھی گئی ہے۔‘
ضمانت پر رہا مرکزی ملزم کی والدہ عصمت جعفر نے عدالت کو ایک درخواست میں استدعا کی کہ ایف سیون فور کا وہ گھر جس میں نور مقدم کا قتل ہوا ان کی ملکیت ہے اور انہیں اسے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔
اس پر عدالت نے کہا کہ اگر یہ ملزمہ کی ملکیت ہے تو انہیں اس میں رہنے اور استعمال کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس لیے ایسی کسی درخواست کی ضرورت نہیں ہے۔
عدالت نے مقدمے کی سماعت 27 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مدعی کے وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ استغاثہ مزید پانچ گواہ عدالت کے سامنے پیش کرے گی۔