وزیر اعظم کے دفتر نے بالآخر طویل انتظار کے بعد خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے نئے سربراہ کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم آئی ایس آئی کے نئے سربراہ ہوں گے جو 20 نومبر سے عہدہ سنبھالیں گے۔
وزیراعظم آفس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ جنرل ندیم احمد انجم کی جانب سے عہدہ سنبھالنے تک جنرل فیض حمید بطور ڈی جی آئی ایس آئی اپنی ذمہ داریاں جاری رکھیں گے۔
بیان کے مطابق منگل کو عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ملاقات ہوئی ہے، جو نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے انتخاب کے حوالے سے وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان جاری مشاورتی عمل کا حصہ تھی۔
بیان میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے کے لیے پینل میں شامل تمام امیدواروں کے انٹرویوز کیے جس کے بعد جنرل ندیم احمد انجم کا انتخاب کیا گیا۔
بیان کے مطابق تفصیلی مشاورتی عمل کے بعد لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی تعیناتی کی منظوری دی گئی ہے۔
اس اعلان کے بعد کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے معاملے پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’تمام افواہیں دم تور گئی ہیں، سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا معاملہ
ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری پر وزیراعظم آفس کا اعلامیہ 20 دن بعد جاری کیا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کی توثیق نہیں کی تھی بلکہ بطور وزیراعظم استحقاق کا استعمال کرتے ہوئے دستخط کرنے میں وقت لیا۔
پاکستان فوج میں اہم تبدیلیاں اور تقرریاں کرتے ہوئے چھ اکتوبر کو لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو 25ویں ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس تعیناتی کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جبکہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور تعینات کیا گیا تھا۔
لیکن وزیراعظم کی جانب سے اس فیصلے پر بظاہر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا جس کے بعد عمران خان اور پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان 15 اکتوبر کو ’اختلاف‘ کے حل کے لیے ملاقات بھی ہوئی تھی۔
اخباری اطلاعات کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے جو اس تعیناتی سے قبل کور کمانڈر کراچی تعینات تھے بدھ کو وزیراعظم عمران خان سے ملاقات بھی کی تھی تاہم اس کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ ایک روز قبل وہ جنرل باجوہ سے بھی ملے تھے۔
لیفٹینیٹ جنرل فیض حمید نے جون میں آئی ایس آئی میں اپنے عہدے کے دو سال مکمل کر لیے تھے لیکن وزیراعظم کے کہنے پر انہیں مزید کچھ وقت آئی ایس آئی میں روکا گیا۔ انہیں 15 جون 2019 کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا گیا تھا۔
چھ اکتوبر کو آئی ایس پی آر نے تقرری اور تبادلے کا اعلامیہ جاری کیا جس میں جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور تعینات کیا گیا جبکہ ڈی جی آئی ایس آئی کے لیےجنرل ندیم انجم کا نام حتمی کیا گیا لیکن حکومت کی جانب سے جی ایچ کیو سے جاری نام کی توثیق نہیں کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس معاملے پر اس وقت سے تعطل پیدا ہوا تھا جس میں وزیراعظم آفس کا موقف تھا کہ یہ ان کا اختیار ہے کہ وہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کریں اور یہ کہ اس تعیناتی و تبدیلی کے لیے وزیراعظم دفتر کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک بیان میں کہا کہ نوٹیفیکیشن جاری کرنے کے لیے قانونی طریقہ کار اپنایا جائے گا۔ وزیر اطلاعات نے گذشتہ بدھ ایک بیان دیا تھا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کی دوبارہ مشاورت ہوئی جس میں تین نام وزیراعظم کو بھیجے گئے ہیں اور ضابطے کے تحت مناسب وقت پر نوٹیفیکیشن جاری کیا جانا تھا۔
وزیر داخلہ شیخ رشید جنہوں نے جعمرات کو وزیراعظم سے ایک ملاقات بھی کی گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس تنازعہ جعمے یعنی 22 اکتوبر تک حل کر لیا جائے گا۔
دوسری جانب اس تاخیر کی وجہ سے پاکستان فوج میں ہونے والی دیگر تعیناتیاں بھی تعطل کا شکار ہوگئیں تھیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے کے حل کے بعد پیر 18 اکتوبر کو آئی ایس پی آر کے بیان کےمطابق گوجرانوالہ کور میں لیفٹینیٹ جنرل عاصم منیر نے کور کی کمان لیفٹینیٹ جنرل عامر سعید کے حوالے کر دی۔
لیفٹینیٹ جنرل عاصم منیر اب کوارٹر ماسٹر جنرل کا چارج سنبھالیں گے۔ نوٹیفیکیشن کے اجرا کے بعد بالترتیب دیگر لیفٹینیٹ جنرل بھی اپنی نئی تعناتیوں کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم
لیفٹینیٹ جنرل ندیم انجم نومبر 2020 میں کور کمانڈر کراچی کے عہدے پر تعینات ہوئے جبکہ ستمبر 2019 میں انہیں میجر جنرل سے لیفٹینیٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔
کراچی میں فوج کے ہاتھوں آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا کے واقعے کے بعد انہیں لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں عزیز کی جگہ کراچی کی کمانڈ دی گئ تھی۔ اس واقعے پر سندھ پولیس میں غیرمعمولی ردعمل دیکھا گیا تھا۔
کراچی کور کمان کرنے سے قبل آئی جی ایف سی بلوچستان تعینات تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بطور آئی جی ایف سی جنرل ندیم نے بلوچستان میں بھارتی پراکسی نیٹ ورک کو بےنقاب کیا تھا۔
جنرل ندیم کمانڈنٹ سٹاف کالج کوئٹہ میں بھی رہ چکے ہیں۔ ندیم احمد کا تعلق پاکستان آرمی کی پنجاب رجمنٹ سے ہے جبکہ وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے 77 لانگ کورس سے پاس آؤٹ ہوئے تھے۔
جنرل ندیم کا تعلق گوجر خان سے ہے۔ ان کے قریبی احباب کا کہنا ہے کہ جنرل ندیم انجم صاف گو طبیعت کے مالک ہیں۔ انہیں ایک پروفیشنل آفیسر کے طور پر جانا جاتا ہے۔
انہوں نے لندن رائل ملٹری کالج سے دو سالہ ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔ جنرل ندیم انجم کا ملٹری حلقوں میں بھی کافی رعب و دبدبہ ہے کیونکہ وہ اندرونی لابیز کو بھی سمجھتے ہیں۔
بطور برگیڈئیر، لیفٹینیٹ جنرل ندیم احمد انجم نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں انسٹرکٹر رہے ہیں جبکہ کراچی کور میں چیف آف سٹاف بھی رہے ہیں۔ ہنگو میں دو سال برگیڈ کمانڈر بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔
جنرل فیض حمید
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید جون 2019 میں ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیے گئے تھے۔ اپریل 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ان کی ترقی ہوئی۔
ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی سے قبل وہ جی ایچ کیو میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تعلق چکوال سے ہے۔ فوج میں پاس آؤٹ ہونے کے بعد وہ بلوچ رجمنٹ کا حصہ بنے۔
اس سے قبل وہ راولپنڈی میں ٹین کور کے چیف آف سٹاف، پنوں عاقل میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور آئی ایس آئی میں ڈی جی کاؤنٹر انٹیلیجنس (سی آئی) سیکشن بھی رہ چکے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو صدرِ پاکستان ہلالِ امتیاز ملٹری کے اعزاز سے بھی نوازا چکے ہیں۔
جنرل فیض حمید کا نام 2017 میں منظرعام پر آیا تھا جب تحریک لبیک نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا اور اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر کئی دنوں تک دھرنا دیا۔
جنرل فیض اس دھرنے کو ختم کرانے میں اہم کردار ہونے کے باعث خبروں میں رہے۔ ان کا نام چند دیگر سیاسی تنازعات میں بھی حزب اختلاف کے رہنما زوروشور سے لیتے رہے۔
پانچ سے 26 نومبر 2017 تک جاری رہنے والا تحریک لبیک کا دھرنا انتخابی فارموں میں ایک ترمیم کی بنا پر دیا گیا تھا (جسے بعد میں حکومت نے واپس بھی لے لیا)۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد مستعفی ہوں۔ یہ 20 روزہ دھرنا حکومت کی جانب سے مظاہرین کے مطالبات ماننے اور وزیر قانون کے استعفے کے بعد ختم ہوا۔
تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی نے میڈیا کو دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ شہباز شریف اور احسن اقبال سمیت کسی حکومتی شخصیت سے نہ مذاکرات ہوئے اور نہ معاہدہ بلکہ مذاکرات جنرل فیض سے ہوئے اور وہی ضامن بھی ہیں۔
بعد ازاں جنرل فیض حمید کا دورہ کابل بھی سرخیوں میں رہا جس کے بارے میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ دورہ غیر رسمی فریم ورک تشکیل دینے کے سلسلے میں کیا گیا تھا۔
پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا ملک کے اندر اور باہر سیکورٹی اور ملک دشمن عناصر پر نظر رکھنے کی انتہائی اہم ذمہ داری ہے۔