صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے تیسرے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسی اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنسز سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیے ہیں، جس پر باقاعدہ سماعت 14جون کو مقرر کی گئی ہے۔
ان ریفرنسز کو پاکستان بار کونسل،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت وکلا کی تمام بڑی نمائندہ تنظیمیں مسترد کر چکی ہیں۔
خاص طور پر جسٹس عیسی کے خلاف ریفرنس پر تمام وکلا تنظیمیں شدید ردعمل ظاہر کر رہی ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں نے بھی جسٹس عیسی کے خلاف ریفرنس کو ’عدلیہ کے خلاف سازش‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کے طریقہ کار پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوانے پر وکلا تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں نے بھرپور مذاحمتی تحریک چلائی تھی۔
اب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جسٹس فائز عیسی کے خلاف ریفرنس ایسے وقت پر دائر کیا ہے جب اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی عید کے بعد حکومت مخالف مشترکہ تحریک چلانے کا اعلان کر چکی ہیں۔
کیا اس صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں کو احتجاج کے دوران اس ریفرنس کے خلاف وکلا کی حمایت بھی حاصل ہو گی؟
جسٹس فائز عیسی اور ’خفیہ‘ ریفرنس
وکلا برادری کے سینئر رہنماؤں نے جسٹس عیسی کے خلاف خفیہ طریقے سے صدارتی ریفرنس پر سماعت سے پہلے ہی سوالات اٹھا دیے ہیں کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا کہ جس جج کے خلاف ریفرنس دائر ہوا اسے میڈیا پر خبریں چلنے کے بعد صدر پاکستان کو خط لکھ کر اپنے خلاف الزامات کی بنیاد پر ریفرنس دائر کیے جانے کی تصدیق کرنا پڑی۔
صدر پاکستان بار کونسل امجد حسین شاہ کا کہنا ہے کہ صدرِ مملکت آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا اختیار ضرور رکھتے ہیں لیکن یہ ریفرنس جس بنیاد پر بنایا گیا اس کے قانونی تقاضے پورے نہ ہونے سے ’بدنیتی‘ ظاہر ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا: ریفرنس میں جسٹس عیسی کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کا الزام ہے لیکن ایف بی آر یا کسی اور متعلقہ ادارے نے ان کی آمدن سے متعلق کبھی کوئی سوال اٹھایا نہ ہی نوٹس بھیجا۔
ان کا کہنا تھا کہ جسٹس فائز عیسی اُس قاضی عیسی کے بیٹے ہیں جو تحریک پاکستان کے ہر اول دستے کے رکن اور بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی تھے اور خود قائد اعظم نے اُنہیں صوبائی مسلم لیگ کا صدر بنایا۔
امجد شاہ نے مزید کہا کہ جسٹس عیسی قاضی جلال الدین کے پوتے ہیں جو ریاست قلات کے پہلے وزیراعظم تھے، آج اس قاضی کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ عدلیہ کے خلاف منظم سازش کی جارہی ہے تاکہ صرف آئین وقانون کے تحت فیصلہ دینے والے جسٹس فائز عیسی کو چیف جسٹس بننے سے روکا جائے۔
اپوزیشن جماعتوں کی حمایت
جمعرات کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پارٹی رہنماؤں سے ملاقات میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی جسٹس عیسی کے خلاف ریفرنس کو ’عدلیہ کے خلاف سازش‘ قرار دیتے ہوئے حکومت کے خلاف ردعمل کی ہدایت کی ہے۔
ن لیگی رہنما طلال چوہدری نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد بتایا کہ پارٹی قائد نے ریفرنس پر احتجاج کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ پارٹی رہنما اور کارکن پہلے کی طرح اس بار بھی عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ عدلیہ کو دباؤمیں لانے کی سازش ناکام ہوسکے۔
دوسری جانب، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار ولی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمن بھی ریفرنس کی مذمت کرتے ہوئے جسٹس عیسی سے اظہار یکجہتی کا اعلان کر چکے ہیں۔
یاد رہے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف بھی انہی جماعتوں نے وکلا تحریک میں بھرپور شرکت کی تھی۔
سابق وزیر اعظم نوازشریف کی قیادت میں ن لیگ نے لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا تھا لیکن جب وہ گجرانوالہ پہنچے تو اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
پاکستان بار کونسل،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن،صوبائی بار کونسلوں ،لاہور،کراچی بارز نے بھی ریفرنس کے خلاف احتجاج کی دھمکی دے رکھی ہے۔
سینئر وکلا رہنما علی احمد کرد کے خیال میں یہ ریفرنس بظاہر حکومت نے بھیجا ہے لیکن اس کے پیچھے طاقتور قوتیں ہیں۔’عدلیہ کے خلاف سازشیں پہلے بھی ناکام کیں اور اب بھی کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا تمام ججوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
سینئر صحافی طلعت حسین نے اپنی ویب سائٹ پر ویڈیو بیان میں کہا کہ جب بھی عدلیہ کے خلاف سازش ہوئی جج خود اس کا حصہ ہوتے ہیں کیونکہ عدلیہ کے اندر سے حمایت کے بغیر سازش ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا یہ جسٹس فائز عیسی کے خلاف اثاثے چھپانے کا ریفرنس نہیں دراصل استحصالی قوتوں کے تابع نہ ہونے کی سزا ہے۔
انہوں نے کہا چیف جسٹس سمیت تمام سینئر ججز کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر عدالتی سازشوں کے خلاف رکاوٹ نہ بنے تو عدلیہ کی تعظیم کا لڑھکتا پتھر دھڑام سے زمین پر آ گرے گا۔