جیسے جیسے افغانستان میں بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری اور بھوک کی خبریں پھیل رہی ہیں، کابل یونیورسٹی کی فیکلٹی آف فائن آرٹس کے پروفیسر نذر محمدی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی ہے جس میں انہیں کابل کی سڑک پر کیلے بیچتے دیکھا جاسکتا ہے۔
انڈپینڈنٹ فارسی کو ایک انٹرویو میں، نذر محمدی نے پھل بیچنے اور سڑک پر کام شروع کرنے کے تجربے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ وہ صرف دو دن کے لیے پھل فروشی میں کامیاب رہے کیونکہ ان دو دنوں میں انہیں احساس ہوا کہ ایک خاندان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس طرح مناسب پیسے کمانا ممکن نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں،’لوگ پھل کھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘
نذر محمدی نے سن 2016 میں نیشنل اکیڈمی آف آرٹس آف قازقستان سے سینیما، تھیٹر اور ٹیلی ویژن میک اپ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ 2011 سے کابل یونیورسٹی کی فیکلٹی آف فائن آرٹس کے ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہے ہیں اور انہوں نے ماسٹرز ڈگری مکمل کرنے کے بعد فیکلٹی میں بطور پروفیسر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔
محمدی اور کابل یونیورسٹی میں ان کے ساتھیوں کو طالبان حکومت کے آنے کے بعد سے ماہانہ تنخواہ نہیں ملی ہے اور ان کا مستقبل واضح نہیں ہے۔ نذر محمدی، لاکھوں دوسرے افغانوں کی طرح، اپنی آمدنی کا ذریعہ بظاہر کھو چکے ہیں اور اپنے گھر والوں کو کھانا کھلانے کے لیے ہر دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔
انہوں نے کابل یونیورسٹی میں کام پر واپس آنے کے لیے دو ماہ انتظار کیا، لیکن یونیورسٹی اب تک بند ہے اور طالبان کے ترجمان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ ’فنکاروں کو افغانستان میں رہنے کے لیے دوسری نوکری کا انتخاب کرنا چاہیے۔‘ اس بیان نے ان کے مستقبل سے متعلق مایوسی کو بڑھا دیا ہے۔ محمدی کہتے ہیں: ’میں میک اپ، سینیما، تھیٹر اور ٹیلی ویژن میں مہارت رکھتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ ان شعبوں میں کام اور سرگرمیوں پر پابندی نہیں ہوگی کیونکہ بصورت دیگر مجھے سڑکوں پر محنت جاری رکھنی پڑے گی۔‘
دو ماہ سے زائد عرصہ بعد جب یونیورسٹی کے دوبارہ کھلنے کی ابھی کوئی امید نہیں، نذر محمدی نے اپنے بھائی سے مدد مانگی تاکہ وہ ایک پھل فروش کے طور پر سڑک پر کام کر سکیں۔ ان کے مطابق ان کا ایک بھائی پہلے سے پھل فروش ہے، اس لیے اس نے کیلے سے ایک ہتھ گاڑی بھری اور پھل بیچ کر روزی کمانے کے لیے سڑک کے کنارے بیٹھ گئے۔ لیکن سڑک پر دو دن گزارنے کے بعد، گاہکوں کی کمی اور دیگر پھل فروشوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ مایوس ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سڑک پر کام کے تجربے کے بارے میں کہا، ’بہت کم لوگ پھل خریدنے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ ایک طرف مجھے اس کام کا علم نہیں تھا اور دوسری طرف کوئی گاہک نہیں تھا۔ میں پریشان ہو گیا اور ہار مان لی۔ دیگر پھل فروشوں کے حالات بھی مایوس کن تھے۔‘
پھل فروشی سے مایوس ہو کر کابل یونیورسٹی کے اس پروفیسر نے ایک دکان کرائے پر لینے اور استعمال شدہ اشیا بیچنے کی کوشش کی، لیکن ابھی تک اس کے لیے کوئی مناسب جگہ نہیں ملی ہے۔ ’میں نے ایک مشترکہ دکان لینے کی کوشش کی اور اپنے دوسرے یونیورسٹی کے ساتھیوں کے ساتھ سیکنڈ ہینڈ آلات بیچنے کی کوشش کی، لیکن اب تک ہم کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ ہم دونوں کے پیسے دکان لینے اور سامان خریدنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔‘
افغانستان میں حالات بہتر ہونے کی کوئی امید فل الحال نظر نہیں آتی، اور پڑھے لکھے اور ناخواندہ افراد کے لیے روزگار کے مواقع کم ہو گئے ہیں۔ نذر محمدی اپنی صورت حال کو لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کی مثال کے طور پر دیکھتے ہیں جو کہ وسیع پیمانے پر غربت اور مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں اور جو کوئی بھی کوشش کرتے ہیں زیادہ مایوس ہو جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے اعلان کیا ہے کہ 2021 کے اختتام تک 97 فیصد افغان عوام غربت کی لکیر سے نیچے ہوں گے اور ان کے حالات زندگی خراب ہوں گے۔ یہ تنظیم دنیا سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ افغانستان کے لوگوں کو تباہی سے بچانے میں مدد کرے۔
اس سے قبل، ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے کہا تھا کہ اسے افغانستان میں خطرے سے دوچار لوگوں کو خوراک اور پناہ فراہم کرنے کے لیے 200 ملین ڈالر کی ہنگامی امداد کی ضرورت ہے تاکہ انسانی تباہی سے بچا جا سکے۔ اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کے سب سے بڑے خدشات میں سے ایک موسم سرما ہے جو ہمیشہ موسمی بیماریوں کے پھیلنے، سڑکوں کی بندش اور افغانستان میں خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ آتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل انڈپینڈنٹ فارسی پر شائع ہوچکی ہے۔