بلوچستان میں جاری سیاسی بحران کے بعد حالات میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی ہے۔ آج بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہونی تھی جو ان کے استعفیٰ کے بعد نہ ہوسکی۔
اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹے کی تاخیر سے سپیکر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں شروع ہوا۔ جس میں سپیکر نے ایوان کو بتایا کہ وزیراعلیٰ جام کمال کے مستعفیٰ ہونے پر عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری کا کوئی جواز نہیں رہا لہذا یہ تحریک واپس لی جائے۔
جس پر تحریک عدم اعتماد کے محرک سردار عبدالرحمان نے قرار داد واپس لینے کی تحریک پیش کی جسے ایوان نے منظور کرلیا اس موقع پرسردار عبدالرحمان کھیتران، اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ ، ملک نصیر شاہوانی، نصراللہ زیرےاور دیگر نے اظہار خیال کرتےہوئے ایک بار پھر سابق وزیراعلیٰ جام کمال کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد انہیں کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان نے جمع کرائی تھی جس کو اپوزیشن کی حمایت بھی حاصل رہی۔
ادھر سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے استعفیٰ دینے کے بعد پہلی مرتبہ ایک ٹویٹ کرتےہوئے کہا ہےکہ ان تین سالوں میں ترقی اور اصلاحات کے لیےبہت کام کیا اور کئی ترقیاتی منصوبے زیر تکمیل جب کہ بہت سے اس بجٹ میں شامل ہیں جن کومستقبل کے ضروریات لیے مکمل ہونا چاہیے۔
جام کمال کہتے ہیں کہ انشااللہ ان میں سے کوئی بھی منصوبہ کسی کے ذاتی خواہش پر ایجنڈے پر ڈی ریل نہیں ہوگا۔
دوسری جانب وزارت اعلیٰ کے اہم امیدوار سپیکر عبدالقدوس بزنجو نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان کو ارسال کردیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والے گروہ میں ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنےکی شرط پر بتایا کہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار کے نام پر اتفاق ہوگیا ہے جو جلد سامنے آجائے گا۔
دوسری جانب جام کمال سے پہلے بار اختلاف کرنے والے سردار صالح بھوتانی نے میڈیا کو بتایا کہ ہمارے اجلاس ہوئے ہیں، سب کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے صوبے میں تبدیلی لانی ہے اور اس کے لیے ہم بہتر ٹیم تشکیل دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ایساآدمی ہو جس تک عوام کی رسائی ہو۔ وزارت اعلیٰ معمولی عہدہ نہیں اس کے لیے وقت لگتا ہے۔
سردار صالح بھوتانی نے بتایا کہ ’میں نے استعفیٰ ایک اصول کے مطابق دیا تھا کہ میں ان جرم میں شامل نہیں ہوں گا۔ کیوں کہ یہاں کے عوام کے مسائل حل نہیں ہورہے۔ تحریک میں نے شروع کی اور پھر اس میں دوسرے لوگ بھی شامل ہوتے گئے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت بنانا آسان نہیں اب تبدیلی لے کر آنی ہے۔ وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں سب شامل ہیں جو بہتر ہوگا وہ سامنے آئے گا۔اتحادیوں کے ساتھ مل کر بلوچستان کا بہتر مستقبل بنائیں گے۔ جونیئر کلرک بھی جب بھرتی کیا جاتاہے تو اس کا بھی لمبا پروسس ہے بات تواب سی ایم کی ہے۔ کھانا جب تیار ہوتا ہے تو کھانے کےلیے ہر آدمی دسترخوان پر بیٹھ جاتا ہے۔ جن لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لینے کیلئے وزارتیں چھوڑ دیں وہ ہمارے لیے صف اول میں ہیں۔ ‘
اسمبلی اجلاس کے دوران بعض اراکین نے مطالبہ کیا کہ سپیکر رولنگ دیں کہ 14 ستمبر سے اب تک جو بھی تقرریاں اور تبادلے ہوئے ہیں وہ سب سیاسی اور انتقامی کارروائی ہیں۔ جن کو منسوخ کیا جائے جس پر سپیکر نے رولنگ دی کہ ان تبادلوں کو منسوخ کیا جائے اور سیکرٹری اسمبلی کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس سلسلے میں گورنر اور چیف سیکرٹری بلوچستان کو مراسلہ ارسال کریں۔ بعد ازاں اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت ملتوی کردیا گیا۔
سردارعبدالرحمان کھتران کے مطابق تمام جماعتوں نے عبدالقدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کیا ہے انہوں نے کہاکہ پہلے مرحلے میں سپیکر کا انتخاب ہوگا اس کے بعد وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوگا۔
کب کیا ہوا
سیاسی بحران کے دوران صورتحال اس وقت جام کمال کے خلاف نظر آنے لگی جب اپوزیشن اور ناراض گروپ نے تحریک عدم اعتماد کی قرار اسمبلی میں پیش کرنے کے دوران اپنے چار ارکان کی عدم شرکت پر انہیں لاپتہ کرنے کاالزام لگایا جس کے بعد باقی ممبران بھی اس خوف کا شکار ہوئے کہ انہیں بھی غائب کیا جاسکتا ہے جس پر انہوں نے سپیکر عبدالقدوس بزنجو کے گھر میں پناہ لےلی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی دوران غائب ہونے والی تین خواتین سمیت ایک مرد رکن اسمبلی اسلام آباد سے منظر عام پر آگئے جنہوں نےویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ سب خیریت سے ہیں اور جلد کوئٹہ پہنچ کر ناراض گروپ کو جوائن کریں گے۔
ان چاروں ارکان کی دوبارہ شمولیت کے بعد سابق وزیراعلیٰ اور پیپلز پارٹی کے رہنما نواب ثنااللہ زہری نے بھی ناراض گروپ کی حمایت کا اعلان کردیا۔ جس سے ان کی واضح اکثریت ثابت ہوگئی۔ معاملہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کی طرف جاتا نظر آرہاتھا اسی دوران جام کمال نے ٹوئٹر کے محاذ پر عندیہ کہ وہ باعزت طریقے سے عہدہ چھوڑنے چاہیں گے۔
اتوار کے روز پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی بابر موسیٰ خیل نے ایک تقریب کے بعد میڈیا کو بتایا کہ جام کمال کے حوالے سے معاملات طے پاگئے ہیں انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور وزیردفاع پرویز خٹک کوئٹہ میں موجود ہیں۔ امید ہے کہ سیاسی بحران حل ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج اتوار کی شب تک وزیراعلیٰ جام کمال کا استعفیٰ آسکتا ہے۔ وزیراعلیٰ اور ان کے ساتھ مان جائیں تو ووٹنگ کی نوبت نہیں آئے گی۔
ان کے کہنے کے مطابق یہی ہوا اور اتوار کی شب کو جام کمال نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا جسے گورنر بلوچستان سید ظہور آغا نے منظور کرلیا۔
بابر موسیٰ خیل نے کہا کہ ہماری جماعت( پی ٹی آئی ) باپ کے ساتھ ہے۔ جہاں اکثریت ہوگی ہم وہاں ہوں گے۔