پاکستان میں مہنگائی اور پیٹرولیم مصنوعات میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر سائیکل کی دھوم مچ جاتی ہے اور لوگ طنزیہ طور پر اس سواری کی تصاویر شیئر کر کے بتاتے ہیں کہ اب گاڑیوں کی جگہ سائیکل ہی چلانا پڑے گی۔
شاید بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہو کہ سائیکل دراصل ایجاد کس مقصد کے لیے ہوئی تھی۔ انڈپینڈنٹ اردو نے کوشش کی ہے کہ سائیکل کی ایجاد سے اب تک کی تاریخ پر نظر دوڑائیں۔
یہ 1815 کی بات ہے کہ انڈونیشیا کے ماونٹ ٹمبورا میں آتش فشاں پھوٹ پڑا تھا، جس نے پوری دنیا کو متاثر کیا تھا۔ آتش فشاں کے پھوٹنے سے دنیا کے درجہ حرارت میں کمی آئی تھی جس کی وجہ سے فصلیں نہیں اگتی تھیں اور سواریوں کے لیے استعمال ہونے والے گھوڑے بھوک کی وجہ سے مر رہے تھے۔
اس دور میں ایک جرمن شخص کارل وون ڈریز، جو گھوڑوں کے بہت شوقین تھے، نے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے کے لیے سوچنا شروع کیا اور یوں انہوں نے لکڑی سے دو پہیے بنا کر ان کے درمیان میں ایک فریم فٹ کر دیا اور اس کا وزن تقریباً 23 کلو گرام تھا۔
موجد نے دونوں ٹائرز کے درمیان ایک سیڈل فٹ کر دیا اور چلانے والا اسی سیڈل پر بیٹھ کر ویلز کو ہاتھوں پر گھماتے تھے اور ’سائیکل‘ چلتی رہتی تھی اور یوں دنیا کی پہلی سائیکل ایجاد ہوئی۔
سائیکل کی ایجاد سے متعلق یہ اختلاف بہرحال ہے کہ یہ کس سنہ میں کس شخص نے ایجاد کی تھی۔ لائیو سائنس نامی میگزین کی ایک تحقیق کے مطابق سائیکل 14 ویں صدی میں اٹلی کے انجینیئر گیووانی فونٹانا نے ایجاد کی تھی۔
اٹلی کے انجینئر نے جو سائیکل ایجاد کی تھی وہ چار پہیوں پر مشتمل تھی اور مورخین کے مطابق یہ دنیا کی پہلی انسانی زور سے چلنے والی سائیکل تھی مگر یہ بات واضح تھی کہ آج کل کے دور کی سائیکل سے اس دور کی سائیکل بالکل مختلف تھی۔
آئی بائک نامی میگزین کے مطابق ڈریز نے جو لکڑی سے سائیکل بنائی تھی وہ چند سالوں تک ہی چلتی رہی اور عوام میں مقبول نہیں ہوئی کیونکہ یہ لکڑی سے بنی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ چلتے ہوئے بہت زیادہ ہلتی تھی اور اس کے علاوہ یہ پیدل چلنے والوں کے لیے خطرے کا باعث بھی تھی اس لیے اس پر چند سالوں بعد پابندی بھی لگائی گئی۔
’بون شیکر‘ کی ایجاد
جرمنی کے ڈریز کی ایجاد کے بعد جدید دور سے مماثلت رکھنے والے سائیکل کی ایجاد کا دور 1860 میں شروع ہوا جب ’بون شیکر‘ نامی سائیکل ایجاد ہوئی۔ یہ سائیکل جدید دور میں بچوں کی سیڈل نما سائیکل کی طرز کی تھی لیکن اس کے موجد کے بارے میں میں بھی اختلاف ہے۔ کچھ مورخین سمجھتے ہیں کہ اس کو جرمنی کے کارل کیچ نےایجاد کیا تھا جبکہ بعض مورخین کا دعویٰ ہے کہ اس کو فرانس کے پیری لالمینٹ نے ایجاد کیا تھا۔
تاہم یہ سائیکل بھی زیادہ دیر تک نہین چلی کیونکہ خراب روڈ پر اس کا چلنا بہت مشکل تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس کو ’بون شیکر ‘ کا نام دیا گیا تھا کیونکہ خستہ حال سڑک پر چلتے ہوئے بہت زیادہ شیک ہوتی تھی۔
بائیسکل کے نام کا استعمال
اب آتے ہے اس دور کی طرف جب پہلی مرتبہ بائسکل نام کا استعمال شروع ہوا۔بائی سائیکلنگ نامی ویب سائٹ کے مطابق 1869 میں پہلی مرتبہ جدید دور میں چلنے والے بائی سائیکل کی طرز کی سائیکل ایجاد ہوئی تھی جو لوگوں میں بہت زیادہ مقبول ہوئی۔
نیشنل میوزیم آف امریکن ہسٹری کی ایک تحقیق کے مطابق اس دور میں ایجاد کیے گئے سائیکل میں دو ایک جیسے سائز کے ٹائرز لگائے گئے اور ساتھ میں گیئر اور چین بھی دونوں پہیوں کے مابین فٹ کی گئی جس طرح ہم جدید سائیکل میں دیکھتے ہیں اور اس کو 1890 میں جون بوئڈ ڈنلوپ نے ربڑ کے ٹائرز لگا کر مزید جدید کردیا۔ یاد رہے کہ ڈنلوپ کے نام سے آج بھی اچھے معیارکے گاڑیوں کے ٹائرزمارکیٹ میں موجود ہے۔
تحقیق کے مطابق یہ سائیکل عوام میں اتنی مقبول ہوگئی کہ 1889 میں سائیکل کی پیداوار دو لاکھ سے زیادہ ہو کر1899 میں دس لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ اس دور میں تحقیق کے مطابق گھوڑا گاڑی اور گھوڑوں پر سفر کرنا مشکل ہوگیا کیونکہ آبادی میں اضافہ ہوتا گیا اور پر ہجوم جگہوں پر اس کا چلانا ناگزیر ہوگیا۔ اس لیے سائیکل عوام میں مزید مقبول ہوگئی اوراس کو سستی سواری کے طور پر بھی استعمال کیا جانےلگا۔
اس دور میں سائیکل کو اتنی پذیرائی ملی کہ امریکہ میں لیگ آف امریکمن ویل مین کے نام سے ایک یونین بھی بن گئی جو 1900 ممبران سے شروع ہو کر ایک لاکھ 50 سے تجاوز کر گئی۔اس زمانے میں امریکہ میں چارلس ڈوری، الیکزینڈر وینٹن، کرنل البرٹ، ویلبوراوراورویئل رائٹ سائیکل کے بنانے والے کمپنیوں میں نمایاں تھے۔
سائیکل کے استعمال میں 19 صدیں کے بعد میں کمی شروع
نیشنل میوزیم آف امریکن ہسٹری کی سائیکل کی تاریخ پر لکھی گئی تحقیق کے مطابق 1900سے 1905 تک سائیکل بنانے والی کمپنیاں 312 سے کم ہو کر 101ہوگئیں اوراس کمی کی گاڑیوں میں اضافے کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت سائیکل کے لیے استعمال ہونے والا راستہ ریلوے ٹریک نے لے لیا جو بنیادی طور پر سائیکل کے لیے بنایا گیا تھا۔
تحقیق کے مطابق تقریبا نصف صدی تک سائیکل چلانا صرف بچوں تک محدود تھا لیکن 1960کے بعد سائیکل چلانے کے رجحان میں دوبارہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔ سائیکل کے استعمال میں دوبارہ اضافہ اس لیے ہوا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سائیکل ماحول کے لیے بہترین سواری ہے کیونکہ ایک تو آلودگی نہیں پھیلاتے اور دوسری وجہ رش سے بچنا تھا۔
جنگ عظیم اول اور دوم میں سائیکل کا استعمال کیسے ہوا؟
جنگوں میں ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، جنگی جہازیں ارو دیگر جنگی آلات کے استعمال سے شاید بہت سے لوگ واقف ہوں گے لیکن دنیا میں لڑی جانے والی بڑی جنگوں، جنگ عظیم اول اور دوم، میں بھی سائیکل کا استعمال کیا گیا تھا اور دونوں جنگوں میں باقاعدہ سائیکل انفنٹری تعینات ہوتی تھی۔
بائی سائکلنگ ڈاٹ کام کے مطابق ابتدا میں جنگی محاذ میں نقل و حرکت بہت اہمیت کی حامل تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس جنگ عظیم میں فوج نے باقاعدہ سائیکل انفینٹری تعینات کی تھی جس پر وہ آسانی سے نقل و حرکت کرتے تھے۔ اسی طرح سائیکل کے استعمال کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ گاڑیوں کے لیے تیل اور مینٹننس کرنا جبکہ گھوڑوں کی چارے کا انتظام کرنا جنگ کے دوران مشکل ہوتا تھا، اس لیے سائیکل ایک آسان سواری تھی جس کو جنگ کے دوران نقل و حرکت کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنگ کے دوران فولڈنگ فرانسیسی سائیکل کا استعمال بہت عام تھا اور سپاہی جب بھی کسی ہموار روڈ کو دیکھتے تھے تو وہ سائیکل کا استعمال کرتے تھے اور خستہ حال راستے پر سائکل ہو کندھوں پر ٹھا کر سفر کرتےتھے۔ دی ورلڈ وار نامی تنظیم کے مطابق سائیکل کا استعمال جنگ عظیم اول اور دوم میں ہوا تھا جس کو بعض اوقات ’سائکلسٹ کور‘ بھی کہتے تھے تاہم جنگوں میں سائیکل کا استعمال 18ویں صدی میں شروع ہوا تھا جس پر سپاہی سفر بھی کرتے تھے اور سامان بھی سپلائی کرتے تھے۔
جنگ عظیم اول اور بوائے ہوڈ
سٹی یونیورسٹی نیو یارک کی ایک تحقیق کے مطابق یہ جنگ عظیم اول میں سپاہیوں کی جانب سے سائیکل کا استعمال تھا جس کی وجہ سے سائیکل کو بعد میں زیادہ تر مردوں کی سواری کی طور پر دکھایا گیا اور اس حوالے سے اشتہارات بھی جب آتے تھے تو اس میں لڑکے دکھائے جاتے تھے۔
اب جدید دنیا میں سائکل کا استعمال یورپ اور دیگر ممالک میں بہت عام ہے۔ آئی بائیک کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں آج کل تقریباً ایک ارب لوگ سائیکل کو بطور سواری یا ورزش کے لیے استعمال کرتے ہیں اوراب دنیا میں سائیکلنگ کو بطورسپورٹس بھی متعارف کرایا گیا ہے۔
پاکستان میں سائیکل اور سہراب سائیکل کی دھوم
دنیا میں سائیکل تو تقریباً ایک صدی پہلے ایجاد ہوا تھا لیکن تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں سائیکل بنانے کا کوئی کارخانہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کے سپئیر پارٹس بنانے والا کوئی تھا۔ زیادہ تر جن افراد کو سائیکل خریدنے کا شوق ہوتا تھا، وہ بیرون ممالک سے برآمد کرکے لوگوں کو بیچتے تھے اور ان کے ڈیلرز زیادہ تر لاہور کے بڑی مارکیٹ نیلا گمبت میں واقع تھے۔
بعد میں اسی مارکیٹ کے تقریبا 22 لوگ اکھٹے ہوگئے اور انھوں نے ایک کواپریٹیو سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور اسی گمبت مارکیٹ میں بائی سائیکل بنانے کی فیکٹری بنانے کا فیصلہ کیا۔ سہراب کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق ابتدا میں یہ سوسائٹی تقریباً دس فیصد سائیکل کے سپئیر پارٹس مقامی سطح پر تیار کرتی تھی جبکہ باقی 90 فیصد باہر سے منگواتی تھی۔
بعد میں اس سوسائٹی کے ممبران 22 سے بڑھ کر 228 ہوگئے جبکہ فیکٹری کے لیے خریدی گئی زمین تین کنال سے بڑھ کر 25 ایکڑ پر پھیل گئی جہاں پر ابتدا میں روزانہ صرف پانچ سائیکل تیار کیے جاتے تھے لیکن اب روزانہ کی بنیاد پر دو ہزار سائیکل تیار کیے جاتے ہیں اور فیکٹری میں کام کرنے والوں کی تعداد 2300 سے زائد ہے۔