پاکستان کی وزارت خزانہ کا کہنا ہےکہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں جن کے دو ادوار مکمل ہونے کے بعد تاحال کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ توسیعی قرض کے معاہدے کے قریب پہنچ گئی ہے۔ البتہ انہوں نے اس بابت کوئی تاریخ یا وقت نہیں بتایا ہے۔
اسلام آباد میں بدھ کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ’معاہدے میں ایک آدھ چیز رہ گئی ہے جس پر بحث ہو رہی ہے، اسے جلد طے کرلیں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے 50 کروڑ ڈالر لے لیے تھے، اب وہ بھگت رہے ہیں۔ ’جو چیزیں رہ گئی ہیں، وہ اس موقع پر سامنے لانا نہیں چاہتا۔‘
ادھر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کے لیے تین ارب ڈالرز جمع کروانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت توقع کر رہی ہے کہ اس اعلان اور آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات کے جلد مکمل ہونے سے مارکیٹ پر مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے ملنے والی رقم کی شرائط بالکل ماضی والی ہی ہیں۔ ’میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس کا آئی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب نے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر تک کی امداد پیٹرول کی ریفائنڈ مصنوعات کی صورت میں دینے کا وعدہ کیا ہے اور تین ارب ڈالر سٹیٹ بینک میں ڈپازٹ رکھنے کا کہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب نے سال کا کل چار ارب 20 کروڑ ڈالر کا پیکج دیا ہے، جو تیل کی قیمتیں اور روپے پر دباؤ کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی بدھ کو ایک ٹویٹ میں مالی امداد پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ شہزادہ محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے پاکستان کے مرکزی بینک میں تین ارب ڈالر بطور ڈپازٹ رکھنے کی حمایت کی اور 1.2 ارب ڈالر کے ساتھ ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات کی مالی معاونت کی۔ ’سعودی عرب ہمارے مشکل وقت میں ہمیشہ موجود رہا ہے، اس وقت بھی جب دنیا اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا کر رہی ہے۔‘
آئی ایم ایف کی شرائط
پاکستانی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ قرض پروگرام بحالی کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کی نئی شرائط پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ تازہ قرضے کی قسط کب ملے گی؟ اس پر حکام کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ قرض پروگرام کی بحالی کا حتمی اعلان آئی ایم ایف بورڈ کرے گا۔
البتہ آئی ایم ایف کی جانب سے قرضے کی چوتھی قسط جاری کرنے کے حوالے سے تاحال مکمل خاموشی ہے۔
آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ رواں ماہ چار سے آٹھ اکتوبر کو پاکستان میں مذاکرات ہوئے۔ اس کے بعد 12 اکتوبر کو وزیر خزانہ شوکت ترین امریکہ گئے، جہاں ان کے آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ مزید مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات میں ان کی مدد کے لیے سیکرٹری خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک بھی موجود تھے۔
حکومتی اہلکاروں کے مطابق پالیسی سطح کے مذاکرات کی مقررہ مدت 13 سے 15 اکتوبر تھی لیکن آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے چھٹے جائزہ مذاکرات مقررہ مدت میں مکمل نہ ہو سکے اور اضافی دس دن گزر جانے کے باوجود فریقین کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔
امریکہ میں مذاکرات کے کئی ادوار چلے جس میں مستقبل میں پروگرام جاری رکھنے اور نئی قسط کے اجرا کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ جب مذاکرات ناکام ہونے کی قیاس آرائیاں شروع ہوئیں تو گذشتہ ہفتے وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے ان کی تردید کی اور کہا کہ ’مذاکرات ختم ہی نہیں ہوئے تو ناکام کیسے ہوگئے۔‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مذاکرات ابھی جاری ہیں اور جلد نتیجہ سامنے آ جائے گا۔
وزارت خزانہ کے ترجمان نے منگل کو ایک اور بیان میں کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ورچوئل مذاکرات جاری ہیں اور آئی ایم ایف کے چھٹے معاشی جائزے کی تکمیل قریب ہے۔
وزیر خزانہ شوکت ترین مذاکرات کا دوسرا دور مکمل کرکے 21 اکتوبر کو اسلام آباد واپس پہنچے، جس کے بعد وہ 23 اکتوبر کو وزیراعظم کے ساتھ سعودی عرب روانہ ہوئے۔ توقع ہے کہ وزیر خزانہ کی سعودی عرب سے واپسی کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔
آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالرز کے مجموعی پیکج کا اعلان ہوا تھا۔ اس میں سے دو ارب ڈالرز کی تین اقساط میں سے دو 2019 کے جولائی اور دسمبر میں پاکستان کو ملیں جبکہ تیسری قسط رواں برس مارچ میں مل چکی ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق پالیسی سطح کے مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کو نہ صرف آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالرز کی قسط ملے گی بلکہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی فنڈز مل سکیں گے۔
شرائط کے عوام پر اثرات؟
وزارت خزانہ حکام کے مطابق ابتدائی طور پر آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ کے منصوبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے نئی تجاویز میں شرح سود بڑھانے اور ڈالر کا مارکیٹ ریٹ مقرر کرنے کا کہا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق اگر ان شرائط پر عمل کیا جاتا ہے تو ڈالر کی قدر آنے والے دنوں میں مزید بڑھے گی جبکہ روزمرہ استعمال کی اشیا پر مزید ٹیکس لگا کر بھی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی جائےگی۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف معاشی ماہرین اور سرکاری ذرائع سے بات چیت کی۔
معاشی امور کے ماہر صحافی شہباز رانا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس میں بڑی شرط یہ ہیں کہ حکومت اضافی ٹیکس لگائے، شرح سود میں اضافہ، گیس کی قیمت میں اضافہ اور اپنے اخراجات میں کٹوتی کرے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی یہ ایسی شرائط ہیں جن کا اثر براہ راست عام آدمی پر پڑے گا۔ ’تنخواہ دار طبقے پر اس کا بوجھ پڑے گا۔ پیٹرول گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ مزید مہنگائی ہوگی۔ روپے کی قدر مزید کم ہوگی۔ یہ سب عناصر مل کر معیشت پر منفی اثر مرتب کریں گے۔‘
معاشی امور کے سینیئر صحافی شکیل احمد نے بتایا کہ آئی ایم ایف اس مالی سال 58 کھرب کی بجائے 63 کھرب روپے ٹیکس جمع کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جس کی وجہ سے حکومت نے نہ صرف بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے بلکہ پیٹرولیم کی عالمی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ بھی عوام کو منتقل کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نجکاری پروگرام میں تیزی لانے کی یقین دہانی بھی کروا دی گئی ہے لیکن ماضی میں مختلف شعبوں کو دی گئی سیلز ٹیکس چھوٹ کے خاتمے، مختلف اشیا پر ڈیوٹیز اور اضافی انکم ٹیکس لگانے سمیت 500 ارب روپے سے زیادہ کے ٹیکس لگانے کا آئی ایم ایف کا مطالبہ پورا کرنا سیاسی طور پر حکومت کے لیے مشکل لگ رہا ہے۔ ’ملک میں مہنگائی پہلے ہی زیادہ ہے اور اضافی ٹیکس لگانے سے مہنگائی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ آگے الیکشن کا سال بھی آ رہا ہے، لہذا آئی ایم ایف سے اس کی مرضی کی شرائط پر سمجھوتہ نہیں ہو پا رہا۔‘
آئی ایم ایف کی مزید شرائط
آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ کمرشل بینکوں میں سرکاری اداروں کے 50 ہزار اکاؤنٹس بند کیے جائیں اور سٹیٹ بینک کے پاس سنگل ٹریژری اکاؤنٹ میں ساری رقم رکھی جائے۔ یہ شرط پہلے بھی عائد کی گئی تھی لیکن حکومت نے کچھ مہلت مانگ لی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معاشی امور کے صحافی شہباز رانا کے مطابق: ’وزارت خزانہ نے اس کام کے لیے مزید ایک سال کی توسیع طلب کی لیکن آئی ایم ایف نے انکار کر دیا۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع اور افواج کے علاوہ دیگر تمام سرکاری اداروں کے اکاؤنٹس جو کمرشل بینکوں میں ہیں، انہیں بند کر دیا جائے۔ آئی ایم ائف کے مطالبے کا مقصد کمرشل بینکوں میں موجود اربوں روپوں کو دوبارہ حکومتی اختیار میں دینا ہے، جو وزارت خزانہ کی متعدد ہدایات کے باوجود حکومتی اداروں نے نجی کمرشل بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں۔‘
ایک اندازے کے مطابق کمرشل بینکوں میں حکومتی اداروں کے دو ہزار 900 ارب موجود ہیں۔ کمرشل بینک حکومتی پیسوں سے حکومت کے ٹریثری بلز میں سرمایہ کرکے حکومت سے ہی اربوں روپے منافع بھی کما رہے ہیں، یہی وجہ ہے حکومت کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔
آئی ایم ایف کے معاملے پر منگل کو پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے میڈیا میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ختم نہیں ہوا تو پھر طے کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والی شرائط اور مذاکرات کی تفصیلات پارلیمنٹ میں سب کے سامنے لائی جائیں۔
حکومتی قرضوں کی تفصیلات
حکومت کے اقتصادی امور ڈویژن نے قرضوں سے متعلق تفصیلات جاری کردی ہیں، جن کے مطابق حکومت نے رواں مالی سال کے تین ماہ میں تین ارب 10 کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا جبکہ اسی دوران 17 ارب روپے کی گرانٹس موصول ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو جولائی تا ستمبر چین سے سات کروڑ 33 لاکھ روپے قرض ملا۔
حکومت نے باہمی معاہدوں کے تحت سات کروڑ 69 لاکھ ڈالر قرض لیا جبکہ امریکہ سے پاکستان کو تین ماہ میں دو کروڑ 72 لاکھ ڈالر قرض ملا۔ اس کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو 45 کروڑ 99 لاکھ ڈالر قرض فراہم کیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ملٹی لیٹرل مالی اداروں سے ایک ارب 56 کروڑ ڈالر قرض لیا گیا۔
اس کے علاوہ حکومت نے کمرشل بینکوں سے 45 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا قرض لیا۔ حکومت کو مختلف ممالک اور ملٹی لیٹرل اداروں سے 10 کروڑ ڈالر کی گرانٹس بھی ملی ہیں۔
مبصرین کے مطابق سعودی امداد کے اس موقع پر ملنے سے پاکستانی کی آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات میں پوزیشن مضبوط ہوگی۔