1960 کی دہائی میں عين جدی سپا کے عروج کے دنوں میں چھٹیاں منانے والے گرم تالابوں میں غوطہ لگا کر بحیرہ مردار کے پانیوں کا رخ کرتے تھے، لیکن اب اسی ساحل پر گڑھے پڑ گئے ہیں۔
صحرا میں پانی کا ایک شاندار ذخیرہ رکھنے والا بحیرہ مردار، جو مشرق اور مغرب میں چٹانوں سے گھرا ہوا ہے، 1960 کی دہائی کے بعد سے اپنے سطحی رقبے کا ایک تہائی حصہ کھو چکا ہے۔
اسرائیل اور اردن کے درمیان پھیلے ہوئے سمندر کا نیلا پانی ہر سال تقریباً ایک میٹر (یارڈ) کم ہو رہا ہے جس کے باعث یہ مسلسل سکڑتا جا رہا ہے اور اب وہاں چاند کی سطح کی جیسے گڑھے دکھائی دیتے ہیں۔
عین جدی کے رہائشی ایلیسن رون، جو کبھی سپا میں کام کرتے تھے، نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’اب یہ آپ کی خوش قسمتی ہو سکتی ہے کہ یہاں آپ پانی کا ایک چینل ڈھونڈ سکیں جہاں لوگ تیرنے کے بجائے اپنے پاؤں کی انگلیاں ہی اس میں ڈبو سکیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لیکن وہاں بہت سارے گڑھے ملیں گے۔ یہ گڑھے 10 میٹر (33 فٹ) سے زیادہ گہرے ہوسکتے ہیں اور یہ سکڑتے ہوئے سمندر کا ثبوت ہیں۔‘
ماہرین کے مطابق نمکین پانی کا کم ہونا زیر سمندر نمک کے ذخائر کو کم کر دیتا ہے۔ وقفے وقفے سے آنے والے سیلاب بہہ کر نچلی جگہوں پر جمے نمک کو تحلیل کر دیتے ہیں جس سے ان کے اوپر کی زمین گر جاتی ہے۔
گھوسٹ ٹاؤن
عین جدی میں تھرمل باتھ کی تقریباً تین کلومیٹر کی پتھریلی ریت جو سپا کو ساحل سے الگ کرتی ہے اب گڑھوں اور دراڑوں سے بھری پڑی ہے۔
مزید شمال میں ایک پورا سنسان ٹورسٹ کمپلیکس اب ایک گھوسٹ ٹاؤن میں تبدیل ہو گیا ہے جہاں راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، روشنی کے کھمبے الٹ گئے ہیں اور کھجورکی شجرکاری کہیں نظر نہیں آتی۔
اسرائیل جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ کے عہدیدار اتائی گیوریلی نے اے ایف پی کو بتایا کہ اردن، اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اب بحیرہ مردار کے ساحلوں کے ارد گرد ہزاروں کی تعداد میں گڑھے موجود ہیں۔
ان کے بقول: ’یہ گڑھے فطرت سے انسانی چھیڑ چھاڑ کی عکاسی کرتے ہیں جس نے بحیرہ مردار میں پانی کے بہاؤ کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ اسرائیل اور اردن دونوں نے دریائے اردن کے پانی کا رخ زراعت اور پینے کے پانی کے لیے موڑ دیا ہے۔ کیمیکل کمپنیوں نے سمندری پانی سے معدنیات نکال لی ہیں۔‘
مزید ستم ظریفی موسمیاتی تبدیلی نے پوری کر دی اور بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت سے یہاں بخارات بننے کے عمل کو مزید تیز ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بحیرہ مردار کے جنوب مغرب میں واقع اسرائیل کے شہر سدوم میں جولائی 2019 میں ملک کا 70 سالوں میں سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا جو 49.9 ڈگری سیلسیس تک جا پہنچا تھا۔
'قدرت کا انتقام‘
گیوریلی نے کہا کہ اسرائیل جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ خلا سے ان گڑھوں کی تشکیل کی نگرانی کر رہا ہے لیکن اس کی وجوہات قطعی طور پر سائنسی نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ یقینی طور پر ’خطرناک‘ صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں لیکن دکھنے میں ’شاندار‘ بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ ایک طرف خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں اور انشورنس کے مسائل حل ہو جاتے ہیں تو یہ خطہ دوبارہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
این جی او ایکو پیس کے اسرائیلی ڈائریکٹر گیڈن برومبرگ کا کہنا ہے کہ صورت حال بہت زیادہ خطرناک ہے اور یہ ظاہر ہونے والے گڑھے انسان کے نامناسب اعمال کے نتیجے میں ’قدرت کا انتقام‘ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم بحیرہ مردار کی سابقہ شان و شوکت واپس نہیں لا سکتے لیکن ہم مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسے مزید غیر مستحکم ہونے سے بچایا جائے۔‘
یہ تنظیم، اردنی، فلسطینی اور اسرائیلی ماہرین ماحولیات پر مشتمل ہے جو بحیرہ روم سے سمندری پانی کو صاف کرنے کی وکالت کرتی ہے تاکہ بحیرہ گیلیلی اور دریائے اردن پر دباؤ کو کم کیا جا سکے جس سے بحیرہ مردار کو دوباہ سیراب کیا جا سکتا ہے۔
ایکو پیس یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ صنعت کو مزید ٹیکس کے ساتھ ’جوابدہ‘ بنایا جائے۔
ناگزیر زوال
اے ایف پی کے پوچھے جانے پر اردن کی وزارت پانی کے ترجمان نے اس بحران کے لیے کوئی تفصیلی حل پیش نہیں کیا۔ اس کے بجائے انہوں نے کہا کہ ڈونرز کو ’بحیرہ مردار کے مسئلے کا معقول حل تلاش کرنے کے لیےاہم کردار ادا کرنا چاہیے۔
جون میں اردن نے بحیرہ احمر سے بحیرہ مردار تک پانی لے جانے کے لیے اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ مل کر ایک نہر بنانے کی تجویز، جو طویل تعطل کا شکار تھی، کو ترک کر دیا ہے۔
اس کے بجائے اردن نے اعلان کیا کہ وہ پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے ڈی سیلینیشن پلانٹ بنائے گی۔
ڈیڈ سی۔اراوا سائنس سینٹرDead Sea-Arava Science Center کے ہائیڈروولوجسٹ ایرن حالفی نے کہا کہ اگر نہر بنائی جاتی تو بھی یہ سمندر کو نہیں بچا سکتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’بحیرہ مردار میں سالانہ ایک بلین کیوبک میٹر پانی کی کمی کا سامنا ہے اور نہر سے محض 200 ملین مکعب میٹر پانی لایا جا سکتا تھا۔ یہ منصوبہ اس کے سکڑنے کو سست کر دے گا لیکن اسے روک نہیں سکے گا۔‘
تو کیا بحیرہ مردار بخارات بن کر مکمل خشک ہونے جا رہا ہے؟ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کا زوال کم از کم اگلے 100 سالوں تک ناگزیر ہے۔ یہ گڑھے صدیوں تک پھیلتے رہیں گے۔
تاہم جھیل ایک توازن تک پہنچ سکتی ہے کیونکہ جیسے جیسے اس کی سطح کم ہوتی ہے پانی زیادہ کھارا ہوتا جاتا ہے اور بخارات کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے۔
رون نے کہا کہ اس پیشن گوئی نے انہیں تھوڑا سا اطمینان بخشا۔ دریاؤں کا رخ موڑ کر اور کارخانے بنا کر انسان نے فطرت میں مداخلت کی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہمیں خود پر شرمندہ ہونا پڑے گا کہ ہم نے ایسا ہونے دیا۔