بندہ ڈاکٹر ہو بلکہ ای این ٹی سپشلسٹ ہو اور وہ بھی گولڈ میڈلسٹ، لاہور کے بڑے ہسپتال میں صدر شعبہ ہو اور بڑی آبادی میں پرائیویٹ پریکٹس کا مالک بھی تو اس کے پاس کان کھجانے کی فرصت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن ابرار صاحب کا معاملہ اس سے بالکل برعکس تھا۔
انہوں نے اس مصروف زندگی میں ادب و شعر کے لیے نہ صرف جز وقتی وقت نکالا، بلکہ اتنی بھرپور شاعری کی کہ ان کی کل وقتی پروفیشنل شخصیت اس کے نیچے کہیں دب کر رہ گئی۔
ڈاکٹر ابرار احمد جب ملتان کے نشتر میڈیکل کالج سے ایم بی بی بی ایس کر رہے تھے تب سے ادبی حلقوں میں جانے مانے جانے لگے تھے۔ لاہور منتقلی کے بعد یہ جان پہچان بڑھتی چلی گئی۔ وہ حلقہ ارباب ذوق کے فعال ترین ارکان میں سے تھے۔ حلقے کی مجلس عاملہ میں شامل رہے اور بیسیوں بار صدارت بھی کی۔
عمر کے لحاظ سے بڑا ہو یا چھوٹا، ادبی اعتبار سے سبنئر ہو یا جونئیر، نظریاتی طور پر لیفٹ کا ہو یا رائٹ کا، ادیبوں شاعروں کے لیے ان کے پاس ہمیشہ وقت ہوتا۔ کوئی یورپ پلٹ دیسی ہو یا کوئی مضافاتی طالب علم، ان کی محبت سب کے لیے عام تھی، ان کی مسکراہٹ سب کے لیے خاص تھی۔
ابرار احمد غزل بھی شروع دن سے نہ صرف یہ کہ لکھتے تھے بلکہ ان کی غزلوں کا کم از کم ایک مجموعہ بھی شائع ہوا، ’غفلت کے برابر۔‘ نام سے قطع نظر، یہ ان کی طرف سے کوئی غفلت ہرگز نہ تھی، شاید ایسا وہ جان بوجھ کر بھی نہیں کرتے تھے۔ دراصل ان کے چھوٹے بھائی افضال نوید غزل کے بڑے عمدہ شاعر ہیں، تو پھر معاصرانہ بھی کیا یہ تو بس برادارانہ چشمک ہوئی۔
بہر طور جدید غزل پر ان کا ایک معرکہ آرا مضمون پہلے ’گل بکاولی‘ نام کے پرچے میں اور پھر ’شب خون‘ میں چھپا۔ آصف فرخی مرحوم کے رسالے ’دنیا زاد‘ مرحوم میں بھی مرحومہ فہمیدہ ریاض اور بعض دیگر مرحومین سے تا دیر ان کی معصومانہ بحثیں چلتی رہیں جن سے نو آموز لطف اٹھاتے رہے، سیکھتے رہے۔
اس سب کے باوجود، ابرار احمد کی بنیادی ادبی پہچان نظم کے حوالے سے ہی بنی اور قائم رہی۔ وہ نثری نظم کے لاہوری سکول سے وابستہ تھے اور اس ژانرے کے دبنگ وکیل تھے۔ ’آخری دن سے پہلے‘ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ہے جو 1994 میں شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
بعض اوقات حیرانی ہوتی ہے کہ ایک واضح طور پہ جدید شاعر کی غزل کا لب و لہجہ روایتی رہا۔ بالکل ایسا ہی ہے، اور اس لیے ہے کہ یہ روایتی رنگ شاعر نے خود ہی منتخب کیا۔ کیوں کیا؟ اس کا جواب بھی اس کی غزل میں مل جاتا ہے۔
ابرار کی غزل میں خوامخواہ کی جدت اوڑھنے کی بجائے شاعر کا سارا زور اپنی واردات کے بیان پر ہے۔ اسے گزارشِ احوالِ واقعی مقصود ہے اور یہی کاوش اس کلام کو پر اثر بناتی ہے۔
نظم کا معاملہ بالکل جداگانہ ہے۔ یہاں آپ کو سب کچھ ملے گا۔ وجودی تنہائی سے صوفیانہ واردات تک، احساسِ مرگ سے لا ادریت تک۔ یہ نظمیں ہمارے بدلتے ہوئے سماج میں جدید انسان کو درپیش قدیم مسائل کا مکمل ادراک بھی رکھتی ہیں اور اس کا مفصل اظہار بھی کرتی ہیں۔ طویل نظم ’سیر بین‘ اس کی محض ایک مثال ہے۔
ابرار احمد کی نظموں کا کینوس وسیع ہے۔ کہیں وہ ’میر کو پڑھتے ہوئے‘ پائے جاتے ہیں تو کہیں ’قصباتی لڑکوں کا گیت‘ گاتے پھرتے ہیں۔ ابھی دوستوسکی کے شہرہ آفاق ناول برادرز کرامازوف کی دنیا میں سیر کر رہے تھے کہ
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک دم کسی ’موہوم سی مہک‘ پا کر موت سے مکالمہ کرنے چل کھڑے ہوئے۔ اور یہ میچ تو ہمیشہ یک طرفہ ثابت ہوتا آیا ہے۔
ڈھائی دہائیوں کے طویل وقفے اور عنوان سمیت مواد میں بارہا تبدیلیوں کے بعد، ڈاکٹر ابرار احمد کی نظموں کا دوسرا مجموعہ 2019 میں، موہوم کی مہک کے نام سے شایع ہوا اور بجا طور پہ تحسین کی نظر سے دیکھا گیا۔ بعد میں مرحوم کی اسی کتاب کو یو بی ایل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ابرار احمد کو اکادمی ادبیات پاکستان کے لیے پاکستانی ادب کا سالانہ انتخاب مرتب کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ جبکہ خود ڈاکٹر صاحب مرحوم کے فکر و فن پر ملک کی کئی جامعات میں مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ اس رثائیے کے آخر میں ابرار کی ایک شاہکار نظم من و عن کوٹ کرنا بنتا ہے:
قصباتی لڑکوں کا گیت
ہم تیری صبحوں کی اوس میں بھیگی آنکھوں کے ساتھ
دنوں کی اس بستی کو دیکھتے ہیں
ہم تیرے خوش الحان پرندے، ہر جانب
تیری منڈیریں کھوجتے ہیں
ہم نکلے تھے تیرے ماتھے کے لیے
بوسہ ڈھونڈنے
ہم آئیں گے بوجھل قدموں کے ساتھ
تیرے تاریک حجروں میں پھرنے کے لیے
تیرے سینے پر
اپنی اکتاہٹوں کے پھول بچھانے
سر پھری ہوا کے ساتھ
تیرے خالی چوباروں میں پھرنے کے لیے
تیرے صحنوں سے اٹھتے دھویں کو اپنی آنکھوں میں بھرنے
تیرے اجلے بچوں کی میلی آستینوں سے، اپنے آنسو پونچھنے
تیری کائی زدہ دیواروں سے لپٹ جانے کو
ہم آئیں گے
نیند اور بچپن کی خوشبو میں سوئی
تیری راتوں کی چھت پر ،اجلی چارپایاں بچھانے
موتیے کے پھولوں سے پرے، اپنی چیختی تنہائیاں اٹھانے
ہم لوٹیں گے تیری جانب
اور دیکھیں گے تیری بوڑھی اینٹوں کو
عمروں کے رتجگے سے دکھتی آنکھوں کے ساتھ
اونچے نیچے مکانوں میں گھیرے، گذشتہ کے گڑھے میں
ایک بار پھر گرنے کے لیے
لمبی تان کر سونے کے لیے
ہم آئیں گے
تیرے مضافات میں مٹی ہونے کے لیے !