ڈاکٹر کیمرون میکلارن کی جانب سے کاروباری شخصیت فل فیراروٹو کے بازو میں انجیکشن لگائے جانے کے عمل کو دو سال بیت چکے ہیں۔ چند منٹ بعد ان کی موت واقع ہو گئی اور کیمرون کو ایک ایسے ڈاکٹر کے طور پر اپنی نئی حقیقت کا سامنا تھا، جنہوں نے اپنے مریضوں میں سے ایک کو تکلیف سے نجات دلانے کے لیے موت کی نیند سلا دیا۔
تب سے سرطان کے مرض کا علاج کرنے والے 38 سالہ ڈاکٹر میکلارن 15 لوگوں کو طاقتور ادویات کی مہلک خوراکیں دے چکے ہیں اور وہ ان 27 دوسرے مریضوں کی موت کے وقت موجود رہے جنہوں نے وہ ادویات لیں جو انہوں نے ان کے لیے تجویز کی تھیں۔
وہ جنوب مشرقی آسٹریلیا کے شہر وکٹوریا میں ان 183 ڈاکٹروں میں سے ایک ہیں جو ان مریضوں کو مرنے میں معاونت کے عمل کا فعال حصہ ہیں جن کا مرض لاعلاج ہوتا ہے۔ یہ ایک عمل ہے جس کے لیے مہم چلانے والے بعض لوگ اور قانون ساز چاہتے ہیں کہ اسے برطانیہ میں بھی منظور کروایا جانا چاہیے۔ برطانوی دارالامرا میں مرنے میں معاونت کے مسودہ قانون کی دوسری خواندگی مکمل ہو چکی ہے۔
آسٹریلوی شہر میلبرن کے رہائشی اور دو بچوں کے والد ڈاکٹر کیمرون نے دی انڈپینڈنٹ سے اس بارے میں بات کرنے پر رضامندی ظاہر کی کہ ان کے لیے ایک تربیت یافتہ طبیب کے طور پر بہت سے لوگوں کی زندگی ختم کرنے کے عمل کا حصہ بننا کیسا تھا۔
جب ہم نے ان سے ورچوئل ملاقات کے لیے استعمال ہونے والی ایپ زوم پر ملاقات کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے آپ کو مرنے میں معاونت فراہم کرنے والے کے طور پر نہیں دیکھتے۔ انہوں نے بالآخر 2017 میں قانون میں ہونے والی تبدیلی سے پہلے وکٹوریا میں اس تبدیلی کے حق میں مہم نہیں چلائی۔
’جو میں کرتا ہوں وہ غلط نہیں‘
لیکن اب اپنے مریضوں میں سے 16 کو زندگی ختم کرنے میں مدد دینے اور مجموعی طور پر 43 اموات کا مشاہدہ کرنے کے بعد کیمرون اپنے مریضوں کے پاس موجود راستوں کو گہرائی میں جا کر دیکھنے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں، کے حوالے سے انکشاف کرتے ہیں۔
کیمرون بتاتے ہیں: ’جو میں کرتا ہوں وہ غلط نہیں ہے۔ مریض اور ان کے خاندان اس کام کی کسی بھی ایسے کام سے زیادہ تعریف کرتے ہیں جو میں نے کبھی طب کے شعبے میں کیا۔ یہ سب سے زیادہ اطمینان بخش کام ہے جو میں نے یقیناً کبھی کیا۔ نہ صرف مریضوں اور ان کے خاندانوں کی خدمت کے اعتبار سے بلکہ اپنا تجربہ شیئر کرنے کے قابل ہونے اور مرنے میں معاونت سے متعلق نکتہ ہائے نظر کو واضح کرنے کے معاملے میں بھی۔‘
میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ آیا وہ اپنے آپ کو قاتل سمجھتے ہیں اور ان کا جواب دل کو لگتا ہے کہ ان کے اور مرنے میں مدد دینے والے دوسرے ڈاکٹروں کے یہ کام کرنے کی وجہ کیا ہے۔ یہ مریض کے انتخاب کی بات ہے۔
’میں قاتل نہیں ہوں۔ یہ قتل نہیں ہے۔ سرطان اور اس کے نتیجے میں مریض کی حالت پہلے ہی یہ کام کر چکی ہوتی ہے۔ اس سے مریض کی سماجی موت واقع ہو چکی ہوتی ہے۔ مریضوں کا وہ کم از کم معیار زندگی بھی ختم ہو جاتا ہے کہ جس کو بنیاد بنا کر وہ زندگی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیں۔ وہ زندگی اور موت کی درمیانی حالت میں ہوتے ہیں اور انجام کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔ یہ کام انہیں اس انجام تک پہنچانا ہے۔ یہ لوگ فیصلے اور عمل کا انتخاب کر رہے ہوتے ہیں اور میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ یہ غلط بات ہے۔‘
جہاں تک فل فیراروٹو کا تعلق ہے، 18 سال تک سرطان سے لڑنے کے بعد موت ان کے لیے رہائی تھی۔ سرطان نے ان کے کئی اعضا کو متاثر کیا تھا۔ وہ مشکل سے سانس لے پاتے تھے اور انہیں تقریباً مسلسل درد رہتا تھا۔ ڈاکٹر اور مریض کی جوڑی جو کچھ شیئر کرنے والی تھی، اس میں ایک تعلق قائم تھا۔ فیراروٹو نے نے اپنی حس مزاح کو آخری دم تک برقرار رکھا۔ انہوں نے ڈاکٹر میکلارن سے کہ وہ انہیں باہر لے جائیں تا کہ وہ ’بہترین سجاوٹ کا انعام جیت سکیں۔‘
کیمرون نے فیراروٹو کے لیے جو کچھ کیا اسے انہوں نے موت کے بعد بھی یاد رکھا۔ ان کی موت کے بعد ان کی بیٹی کیٹی ہارلی کیمرون کو دوسرے کمرے میں لے گئیں اور انہیں وہ خط دیا جو ان کے والد نے ڈاکٹر کے لیے لکھا تھا۔ یہ خط فیراروٹو کی موت کے بعد ڈاکٹر کو دیا جانا تھا۔
اپنی تحریر میں فیراروٹو نے لکھا: ’میں نے بہت سوچا کہ جو کچھ آپ نے میرے لیے کیا اس کا شکریہ کیسے ادا کروں۔ میں نے خط لکھنے کا فیصلہ کیا تا کہ آپ کبھی بھلا نہ سکیں۔ میں آج کی دوا دینے پر آپ کی بہادری پر آپ کا کا شکر گزار ہوں تا کہ میں بالآخر سکون پا جاؤں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’میں آپ کو مختصر محسوس ہونے والے لمحے کی طرح جاننے پر خوشی اور فخر محسوس کرتا ہوں۔ آپ نے جو کام کیا مجھے اس پر فخر ہے اور میں ہمیشہ کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں۔‘
کیمرون کو خاندانوں کی طرف سے دوسری تحریریں بھی مل چکی ہیں۔ ایک خط اس خاتون کی والدہ کا ہے جسے انہوں نے مرنے میں مدد دی۔ انہوں نے یہ خط فریم کروا کے گھر میں رکھا ہوا ہے۔ یہ ایک غمزدہ ماں کی طرف شکریے کا دل سے کیا گیا اظہار ہے، جس میں انہوں نے لکھا: ’میں اپنی خوش قسمتی کے ستاروں کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ ہماری طرف آئے۔‘
’یہ واقعی کنٹرول کے بارے میں ہے‘
ڈاکٹر میکلارن وضاحت کرتے ہیں کہ موت میں معاونت کے عمل میں مرکزی نکتہ لوگوں کو انتخاب کا موقع اور کنٹرول دینا ہے۔ ان کے پاس جن 344 مریضوں کے کوائف موجود ہیں ان کے معاملے میں شدید درد یا اس کے بارے میں پائی جانے والی تشویش وہ بڑی وجہ نہیں جس کے تحت انہوں نے مرنے کی اجازت طلب کرنے کے لیے درخواست دی۔
’یہ سب سے زیادہ عام چوتھی وجہ ہے۔ تین بڑی وجوہات اپنا وقار کھو رہی ہیں۔ ان وجوہات میں زندگی کو پر لطف بنانے والی سرگرمیوں کا حصہ نہ بن پانا اور خود مختاری سے محرومی شامل ہے۔‘
’واقعی بات کنٹرول کی ہے۔ خاص طور پر ان مریضوں کی ہے جنہوں نے اپنے آپ کو ہفتوں، مہینوں یا بعض صورتوں میں سالوں کے لیے طبی نظام کے سپرد کر دیا ہے۔ یہ اس بیماری سے اپنا کنڑول واپس لینے کا ایک موقع ہے جو ان کی زندگی کو چلا رہی ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں: ’جو چیز انہیں یہ کرنے کے قابل بناتی ہے، وہ ترپ کے پتے کا مالک ہونا ہے۔ اس لیے زندگی کے خاتمے کے عمل کا خوف حقیقی بن جائے یا اسے حقیقت بنا دیا جائے تو اس صورت میں انہیں اس سے بچنے اور یہ یقینی بنانے کا موقع مل جاتا ہے کہ جس بات کا انہیں خوف ہے، اس کا انہیں کوئی تجربہ نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہاں موت بذات خود ایک سادہ سی بات ہے وہیں اس دوا کو حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ مریضوں کو پہلے ڈاکٹر میکلارن کی طرح کا ڈاکٹر تلاش کرنا پڑتا ہے تا کہ باضابطہ درخواست دی جا سکے۔ اس بعد جائزوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جس میں دو ڈاکٹر حصہ لیتے ہیں۔ ایک جائزہ بورڈ اور فارمیسی کی ایک ٹیم ہوتی ہے۔ دوا کے لیے پہلی درخواست دینے کے بعد اس کے حصول میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
ایک بار کامیابی کی صورت میں مریضوں کو ایک ڈبہ موصول ہوتا ہے جس میں ضرورت کا تمام سامان موجود ہوتا ہے، بشمول ہدایت نامہ۔ اس کے بعد فارماسسٹ مریضوں کے گھر جاتے ہیں اور پسی ہوئی چینی کو استعمال میں لاتے ہوئے مظاہرے کے لیے ایک کٹ استعمال کرتے ہیں تاکہ مریضوں کو دکھایا جاسکے کہ وہ خود کس طرح دواؤں کو ملا سکتے ہیں۔ تاہم کچھ مریضوں کو جیسا کہ فل فیراروٹو کی حالت کے پیش نظر کیمرون کی طرح کوئی ڈاکٹر دوا کا ٹیکہ لگاتا ہے۔
1961 کے خود کشی ایکٹ کے تحت برطانیہ اور ویلز میں موت میں معاونت پر پابندی ہے۔ اس قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ 14 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ ڈگنٹی ان ڈائنگ چیئر اور آزاد رکن بیرونس میچر نے ایک پرائیویٹ ممبر بل متعارف کروایا جس کے تحت مرض الموت میں مبتلا لیکن ذہنی طور پر صحت مند بالغ افراد کے لیے زندگی کے آخری مہینوں میں موت میں معاونت کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔
اس قانون سے فائدہ اٹھانے سے پہلے دو ڈاکٹر اور ہائی کورٹ کے ایک جج کا آپس میں متفق ہونا ضروری ہو گا۔ ان حلقوں نے اس قانون کی مخالفت ہے جنہیں ایسے لوگوں کے حوالے سے تشویش ہے جنہیں مرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے یا یہ سمجھا جائے کہ وہ بوجھ ہیں۔ دوسرے لوگوں کا ماننا ہے کہ موت میں معاونت کا جو مطلب ہے عوام اس کی مکمل تائید نہیں کرتے۔
یونیورسٹی ہسپتال ساؤتھ ہیمپٹن کے شعبہ سکون بخش ادویات کی کنسلٹنٹ ڈاکٹر کیرل ڈیوس کے بقول: ’برطانیہ اور ویلز میں ’موت میں معاونت‘کو قانونی شکل دینا زلزلہ خیز اخلاقی اور قانونی تبدیلی ہوگی جس کے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ضروری ہے کہ اس طرح کی بڑی تبدیلی صرف اس وجہ سے نہ ہو کہ ’موت میں معاونت‘کی غلط تشریح کی جا رہی ہے اور اسے غلط طور پر سمجھا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے لندن میں قائم ایجنسی’سرویشن‘کے رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں 43 فیصد افراد نے موت میں معاونت کو درست طور پر سمجھا کہ اس کا مطلب ہے کہ مریضوں کی زندگی ختم کرنے کے لیے انہیں دوا دی جائے گی۔ ڈاکٹر ڈیوس کا ماننا ہے کہ میچر بل میں دی گئی احتیاطیں مؤثر ثابت نہیں ہوں گی اور اہلیت مبہم ہے۔
’مجھے ان کے بازو میں سوئی داخل کرنا یاد ہے‘
جہاں تک ڈاکٹر میکلارن کا تعلق ہے وہ اس بات پر قائم ہیں جو کچھ وہ اپنے مریضوں کے لیے کرتے ہیں وہ درست ہے۔ وہ فل فیراروٹو کے تجربے کی طرف لوٹتے ہیں، جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ آخر میں وہ ’لاؤنج میں رکھی جانے والی کرسی سے بمشکل باہر نکل سکے اور اپنی خود مختاری چھن جانے سے ناقابل یقین حد تک تکلیف اٹھا رہے تھے۔ وہ ایک بہت ہی کامیاب بزنس مین تھے اور بہت ہی حوصلہ مند انسان تھے اور اپنی اور اپنی خود مختاری کا خیال رکھنے کی صلاحیت کی یہ توہین ان کے لیے سراسر اذیت تھی۔‘
’مجھے ان کے بازو میں سوئی داخل کرنا اور اپنے اندر کی آواز یاد ہے کہ صرف یہ امید کرتے ہوئے کہ میں ناکام رہوں گا اور ٹیکہ نہیں لگا سکوں گا۔ اس وجہ سے نہیں کہ میں فل کو ٹیکہ نہیں لگانا چاہتا تھا بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اس کے لیے تیار تھے اور مجھے معلوم تھا کہ میں ان کی وہ خدمت کر رہا ہوں جو وہ شدت کے ساتھ چاہتے تھے، لیکن میرے لیے ایسا کرنا مشکل تھا۔ یہ واقعی مشکل کام ہے۔‘
وقت گزرنے کے ساتھ انہیں توقع ہوئی کہ جو کچھ انہوں نے کیا اور جس عمل کا حصہ بنے اس پر انہیں پریشانی ہو گی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ’میں جو کر رہا تھا اس پر میری سوچ میں اختلاف نہیں تھا۔ کسی کی تکلیف اور انہیں نقصان پہنچانے میں معاونت کی درخواستوں کو نظرانداز کرنا۔ ہم اسے انسانی انداز میں انجام دیتے ہیں۔ ہم جس دوا کا انتخاب کرتے ہیں اس سے مریضوں کو تکلیف نہیں ہوتی۔ پریشانی نہیں ہوتی۔‘
’جس بات کا میں احترام نہیں کرتا وہ ایسے لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ آپ کو کسی ایسے کام کے قریب نہیں جانا چاہیے۔ یا وہ اپنے مریضوں سے کہتے ہیں کہ آپ کو کسی ایسے کام کے قریب نہیں جانا چاہیے۔ اگر کوئی فرد واحد اس عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتا تو ان کی مکمل حمایت کی جانی چاہیے۔ چاہے وہ کوئی مریض ہو جو کسی معاونت کے بغیر طبعی موت مرنا چاہتا ہو یا وہ کوئی ڈاکٹر ہو جو یہ سروس فراہم نہ کرنا چاہتا ہو۔ یہ قطعی طور پر درست ہے۔ اس کی ہمیشہ حفاظت اور حمایت ہونی چاہیے۔ لیکن کسی کو اختیار نہیں ہے کہ اس نکتہ نظر کو کسی اور پر مسلط کرے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ میں کیا سوچتا ہوں بلکہ یہ اہم ہے کہ کرسی پر بیٹھا یا بستر پر لیٹا مریض کیا سوچتا ہے۔ میں پھر بھی دیکھوں گا کہ رائے عامہ کے کسی جائزے یا شواہد کے ساتھ تحقیق کو دیکھوں گا تاکہ یہ کہہ سکوں کہ مرض کے آخری مرحلے میں پہنچے ہوئے ناقابل علاج مریض ایسا نہیں چاہتے۔‘
’ہمیں عام آبادی یا ارکان پارلیمنٹ کے ڈیٹا کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ وہ لوگ نہیں جو اس مسئلے پر ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہاں صرف ان لوگوں کی آواز کی اہمیت ہے جن کی حالت ایسی ہے کہ انہیں اس قسم کے انتخاب اور راستے کا سامنا ہے اور راستے پر چلتے ہوئے اس انتخاب کو پسند کریں گے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود کو ان پر مسلط کرنےکی بجائے ان کے نکتہ ہائے نظر کے حق میں قانون بنائیں اور ان کی حمایت کریں۔‘
زوم سے سائن آف کرتے ہوئے ڈاکٹر میکلارن نے فلسفی جان سٹوارٹ مل کے قول کو یاد کیا جو ان الفاظ کے ساتھ ختم ہوتا ہے: ’فرد واحد کو اپنے آپ، اپنے جسم اور دماغ پر مکمل حکمرانی حاصل ہے۔‘
ڈاکٹر میکلارن کا کہنا ہے کہ یہ قول موت میں معاونت پر ان کے مؤقف کی مختصر الفاظ میں پیش کرتا ہے۔
برطانیہ نے اب بھی یہ مسئلہ طے کرنا ہے۔ موت میں معاونت بل دارامرا کے پاس واپس آئے گا لیکن اگر وہ وہاں سے منظور ہو گیا تو بھی اسے دارالعوام میں ارکان کے حمایت کی ضرورت ہوگی۔
© The Independent