’آج سے دو سال پہلے رات کے چار بجے میں نے اکیلے اپنی ماں کو مردہ خانے میں چھوڑا تھا۔ مگر آج تک ایسے خواب آتے ہیں کہ امی کو وہی آخری لمحات والی قے آئی ہے اور وہ مجھ سے ہاتھ جوڑ کر کہ رہی ہیں مجھے بچا لو میں مرنا نہیں چاہتی۔‘
یہ کہنا ہے 21 سالہ طیبہ کا جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھیں اور انہوں نے اپنی ماں کی کینسر کے علاج کے وقت اکیلے دیکھ بھال کی۔ مگر ان کے لیے یہ سفر خود موت سے کم نہیں تھا۔ آج بھی انہیں رات کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں کہ ان کی ماں کو دوبارہ کینسر ہو گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں ایسے خوابوں کے بعد ڈر کے مارے اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ مجھے اٹھا لے مگر وہ اس وقت سے دوبارہ نہ گزارے۔‘
کینسر کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کی اپنی زندگی انتہائی مشکل سے گزرتی ہے، اور اکثر سائکولوجسٹس کے بقول وہ خود ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔
کینسر کے مریضوں کے متعلق تو بات عموماً کی جاتی ہے پر جس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا وہ ہے مریضوں کا خیال رکھنے والے گھر کے وہ افراد، جو دن اور رات مریض کی خدمت فرض سمجھ کر کرتے ہیں. ان لوگوں پر کیا گزرتی ہے اور وہ دنیا کے سامنے کیسے ہنستا مسکراتا حوصلے سے بھرپور چہرہ رکھتے ہیں یہ وہ ہی جانتے ہیں اور یہ کہ اندر سے یہ صدمہ ان کو دن بہ دن گھلا رہا ہوتا ہے۔
کینسر کے مریضوں کا خیال رکھنے والے گھر کے افراد عموماً ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں، جن کے بارے میں ان کو خود معلوم نہیں ہوتا۔
ذہنی امراض کے ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے افراد جو مریضوں کا خیال رکھتے ہیں وہ پوسٹ ٹرامیٹک سنڈروم یا پی ٹی ایس ڈی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ خوشی کو عام افراد کی طرح محسوس نہیں کرسکتے اور دیرپا ڈپریشن سے گزرتے ہیں۔ ایسے افراد کو معمول کی زندگی پر لانا بہت مشکل ہوتا ہے، کیونکہ ایسا عمل مہینوں سے سالوں پر محیط ہوتا ہے۔
پوسٹ ٹرامیٹک سنڈروم یا پی ٹی ایس ڈی کے بارے میں سائیکالوجسٹ سکینہ علی کا کہنا ہے کہ کسی بھی طویل صدمے کے بعد انسان اس سنڈروم سے گزرتا ہے جو کہ کسی کی بھی زندگی میں ایک گہرے زخم کے مانند ہے۔ اس میں مبتلا انسان کو ماضی کے فلیش بیک آتے ہیں، سانس بند ہوتا ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور فوکس خراب ہوجاتا ہے۔
اس مرض کی عام وجوہات میں بچپن یا گھریلو زندگی کے تکلیف دہ واقعات زیادہ تر شامل ہے۔
انہوں نے مزید بتایا، ’ریسرچ بتاتی ہے کہ پی ٹی ایس ڈی کینسر کے مریضوں کے علاوہ خیال رکھنے والوں کو بھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت ایسا کوئی سپورٹ سسٹم نہیں جہاں یہ لوگ بیٹھ کر آپ بیتی بتائیں اور کوئی حل ڈھونڈیں۔‘
ان افراد کو وہم آتے ہیں جن میں وہ ان مریضوں کو کربناک صورت حال میں دیکھتے ہیں اور ان کی مدد کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ سالوں پر محیط یہ عرصہ کسی بھی نارمل انسان کے دماغ کے لیے کڑا امتحان ثابت ہوتا ہے۔
سائیکولوجسٹ عمارہ بتول کے مطابق، ایسے افراد اس صدمے سے آگے بڑھنے کے لیے coping mechanism بھی بنا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ over-achiever بن جاتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے افراد دوسروں سے زیادہ پڑھائی یا کام میں خود کو مصروف رکھتے ہیں تاکہ ان کا دماغ تکلیف دہ یادوں سے آگے بڑھے۔ اسکی ایک اور وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ لوگ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اور ہر روز ایسی کیفیت ہوجاتی ہے کہ دنیا ان کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے اور انکو کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے۔
’موت کا ڈر‘
عمارہ بتول، جو کہ نہ صرف سائیکالوجسٹ ہیں بلکہ خود ایک کینسر کی مریضہ کی بیٹی ہیں، کہتی ہیں کہ خیال رکھنے والے افراد کے آس پاس لوگوں کو انکا خیال نہیں ہوتا اور ایسے لوگ خوشی محسوس کرنا گناہ محسوس کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میرے متعدد ایسے کلائنٹس ہیں جن کو ایسے صدمے کے بعد موت کا خوف بری طرح سے رہتا ہے۔ وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ وہ حد سے زیادہ بے چینی اور ڈپریشن کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔کچھ کیسز میں لوگ اس سٹریس کی وجہ سے جسمانی تکلیفوں میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ دن رات اپنے کسی پیارے کو اس تکلیف میں دیکھتے ہیں تو اس تکلیف کو خود بھی محسوس کرنے لگتے ہیں۔‘
’کینسر کے مریض کا سب سوچتے ہیں، دیکھ بھال کرنے والے کو کب پوچھیں گے؟‘
بذات خود ایک کینسر کی مریضہ کی بیٹی ہونے کی وجہ سے میں نے ایسے کربناک حالات ایک چھوٹی عمر سے دیکھے ہیں۔ علاج کے دوران امی کی حالت خطرناک حد تک خراب بھی ہو جاتی تھی، اس اتار چڑھاؤ کی وجہ سے مجھ میں بے چینی کی کیفیت یعنی anxiety ہوئی جو کہ اس وقت مجھے معلوم نہ تھی۔
میرے لیے وہ یونیورسٹی کا ایک معمول کا دن تھا، مئی کی چنچلاتی ہوئی دھوپ میں گھر کا سفر کرنا اور آتے ساتھ امی ابوکو ڈھونڈنا کہ وہ گھر پر موجود ہیں کہ نہیں۔ گھر آئی تو امی اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی تھیں، مجھے دیکھ کر ایک معمول کی مسکراہٹ دی اور میرے دونوں ہاتھ تھام کر مجھ سے جو کہا اس کے بعد سے اب تک میری زندگی پھر ویسی نہ رہی۔
امی نے مجھے حوصلے سے بھرپور آواز میں کہا، ’ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ آپ کو بریسٹ کینسر ہے مگر بروقت علاج سے اس سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر نے آپ کے ابو کو بھی تاکید کی ہے کہ کہاں سے علاج کرانا ہے اور کیسے مراحل ٹریمنٹ میں آسکتے ہیں۔‘
امی نے تو اپنی بات جاری رکھی، مگر 19سال کی عمر سے میری زندگی ہمیشہ کے لیے بدل چکی تھی۔
امی کی کینسر کی تشخیص میرے سمیسٹر کے فائنل پرچوں کے دوران ہوئی تھی۔ کلاس کی سب سے پڑھاکو بچی سے میں ہر وقت پریشانی میں مبتلا، خلاؤں میں گھورنے والی انجان شخصیت میں تبدیل ہوگئی تھی۔
’میں لوگوں کو خوش دیکھ کے سوچتی تھی کہ وہ کتنے خوش قسمت ہیں کی کینسر جیسی طویل بیماری سے انجان ہیں اور خوش رہ سکتے ہیں۔ ‘
میرے والد روز امی کو ہسپتال لے کر جاتے تھے اور ایک لفظ شکایت کا نہیں زبان پر لاتے تھے۔ کچھ سال بعد خود بھی برین ہیمرج کا شکار ہوگئے اور پھر امی انکو سنبھالنے والی تھیں۔ گھر میں مستقل بیماری نے مجھے ڈپریشن کے ساتھ ہر وقت بے چینی سے دوچار کردیا تھا۔ آفس آکر سکون ملتا تھا کہ وہاں ماحول کچھ اور ہے۔ چھٹی والے دن بھی میں آفس چلی جاتی تھی۔
میری امی کو کینسر 2010 میں ہوا تھا مگر آج تک کوئی برا خواب آجاتا ہے کہ امی کو کینسر دوبارہ ہوگیا ہے اور نیند میں تڑپنے لگتی ہوں اور اٹھنے پر نارمل ہونے میں کافی دیر لگتی ہے۔
’کیا آپ نے مجھے اس لیے پیدا کیا تھا؟‘
طالب علم طیبہ نے یہ بھی بتایا کہ امی کی بیماری میں اس قدر خدمت درکار تھی کہ پڑھائی تک چھوڑنا پڑی۔
‘سردی کی دوپہر میں کپڑے دھو کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ امی کا بیگ ڈرین کرنا پڑا۔ اس وقت میری آنکھوں میں آنسو تھے اور میری برداشت جواب دے چکی تھی، میں نے امی کی طرف دیکھا اور کہا: مجھے آپ نے اسلیے پیدا کیا تھا کہ بس یہ سب ہی کروں؟ اب مجھ سے نہیں ہوتا۔‘
طیبہ نے ایک وقفے کے بعد بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’اگر میں امی کی جگہ ہوتی تو وہ مجھے کبھی نہ چھوڑتیں، یہ سوچ کر میں چپ ہوجاتی تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’میری ذہنی حالت اس حد تک خراب ہوچکی ہے کہ مجھے آگے صرف اندھیرا ہی دکھتا ہے زندگی میں۔ مجھے سائیکالوجسٹ نے بائی پولر تشخیص کیا ہے۔ امی کی موت کے بعد مجھے پینک اٹیک آنے لگے اور سانس خود سے بند ہوتا لگنے لگا۔‘
زہنی ماہرین کے بقول ایک بات جو کہ ایسے افراد میں مشترکہ دیکھی جاتی ہے وہ یاداشت کا متاثر ہونا اور ضرورت سے زیادہ کام میں محنت کرنا۔ کہ بعض افراد موت کے ڈر کے برعکس خود کشی کی طرف بھی مائل ہوجاتے ہیں۔
اس لیے ایسے افراد کی دل جوئی اور تکلیف کا احساس کرنا بہت ضروری ہے۔ ایسے افراد کو یہ شکایت بھی ہے کہ لوگ صرف صبر کرنے کا سبق دیتے ہیں اور نت نئے طریقے بتاتے ہیں کی مریض کو کیا کرائیں، ایسی باتیں بعض اوقات الٹا نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔
’مجھے آج بھی رشتہ دار طعنے دیتے ہیں کی ماں کا ڈھنگ سے خیال نہیں رکھا۔‘طیبہ نے روہانسی لہجے میں کہا اور خاموش ہو گئی۔