پاکستان میں شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ درختوں کے بیج پھینک کر سارا کام اللہ کے حوالے کر دیا گیا ہے، پورے ملک کی طرح بیج بھی اللّٰہ کے ہی حوالے ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے بدھ کو شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے دس بلین سونامی منصوبے کی تفصیلات طلب کی تھیں جس کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ ’درخت کاغذوں میں تو نہیں لگے۔‘
سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ نے سیکرٹری جنگلات خیبرپختونخوا کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ سیکرٹری جنگلات کے وارنٹ نکال دیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر ہوٹل اور ریسٹ ہاؤسز بن گئے ہیں۔ ’درخت کاٹ کر نیشنل پارک میں تعمیرات کی جا رہی ہیں۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے بھی سوال کیا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک ہے وہاں تعمیرات کیسے ہوسکتی ہیں؟
سیکرٹری جنگلات خیبر پختونخوا تو موجود نہیں تھے لیکن ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے عدالت سے کہا کہ وہ مارگلہ ہلز کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں گے۔
جس پر چیف جسٹس گلزا احمد نے کہا کہ ’جو پہاڑ الاٹ کر چکے ہیں ان کا کیا کریں گے۔ کمراٹ، سوات اور نتھیا گلی میں درخت کٹ چکے ہیں، محکمہ جنگلات کا ٹمبر کا کاروبار چل رہا ہے، گھروں میں ڈیلیوری پہنچ جاتی ہے۔‘
محکمہ جنگلات کے حکام نے عدالت کو دستاویزات دکھاتے ہوئے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں 19 کروڑ درخت لگ چکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمیں غیرملکی میڈیا رپورٹس دکھا کر متاثر نہ کریں۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے بھی ریمارکس دیے کہ 19 کروڑ درخت لگ جائیں تو پورا کے پی ہرا بھرا ہو جائے۔ 19 کروڑ درختوں کے لیے پودے کہاں سے لیے؟
محکمہ جنگلات کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ زمین پر بیج پھینک کر درخت اگائے جاتے ہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’بیج پھینک کر سارا کام اللہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اس لحاظ سے تو کے پی میں جنگلات ہی جنگلات ہونے چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیکریٹری جنگلات سندھ بھی اس حوالے سے سپریم کورٹ بتایا کہ سندھ میں 57 کروڑ درخت لگائے جا چکے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ’لگتا نہیں سندھ حکومت نے درخت لگانے پر کوئی پیسہ خرچہ کیا ہے۔ اگر درختوں پر دو ہزار 323 ملین خرچ کیے گئے ہوتے تو پورا سندھ ہرا بھرا ہو چکا ہوتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ سندھ کی کتنی اراضی پر جنگلات ہیں؟ اس پر سیکرٹری جنگلات سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں 27 لاکھ ایکڑ اراضی پر جنگلات ہیں۔ ٹین بلین سونامی میں سے سندھ میں تین بلین درخت لگائے جا رہے ہیں۔
سندھ میں درختوں کی تفصیلات سن کر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سندھ میں جو پودا لگتا ہے وہ بکری کھا جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی سے ٹھٹہ جائیں، تمام جنگلات کی زمین پر تجاوزات ہیں۔ سندھ میں تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے جنگلات اگائیں۔
سیکریٹری جنگلات بلوچستان بھی عدالت میں پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زیارت میں درختوں کو کاٹ کاٹ کر جلایا جا رہا ہے۔ ’کوئٹہ سے چمن جائیں کوئی درخت نظر نہیں آتا۔ کوئٹہ کے پہاڑوں پر درخت کیوں نہیں لگائے جا سکتے؟‘
سیکرٹری جنگلات بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ درختوں کو مٹی اور پانی چاہیے ہوتا ہے اور بلوچستان کے پہاڑ پتھریلے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’فوج کے ساتھ مل کر بلوچستان میں شجرکاری پروجیکٹس لگا رہے ہیں۔‘
سپریم کورٹ نے آئندہ سماعت میں تمام سیکریٹریز جنگلات کو ذاتی حثیت میں طلب کرتے ہوئے تمام صوبائی سیکریٹریز جنگلات کو ایک ماہ میں شجرکاری منصوبوں سے متعلق رپورٹس جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس دسمبر میں نہروں کے کنارے شجرکاری کیس میں حکومت کی جانب سے کے پی کے میں ایک ارب درخت لگانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس بلین ٹری سونامی پر عدالت نوٹس لیتے ہوئے منصوبے کی تفصیلات طلب کی تھیں۔
اس کے علاوہ عدالت نے سوال کیا تھا کہ منصوبے پر اب تک کتنے فنڈز خرچ ہوئے؟ اور فنڈز خرچ ہونے کا جواز بھی ریکارڈ کے ساتھ پیش کیا جائے، کتنےدرخت کہاں لگے؟ لیکن عدالت میں تاحال محکمہ جنگلات کی جانب سے مکمل تفصیلات جمع نہیں کرائی گئیں۔