حکومت کی جانب سے جون میں 4.26 روپے اضافے کے ساتھ پیٹرول کی قیمت 112.68کی ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کی نئی لہر سے عوام انتہائی پریشان جبکہ پی ٹی آئی حکومت دباؤ میں ہے۔
پٹرول کی قیمت میں ہوش ربا اضافے سے آن لائن ٹرانسپورٹ سروس اوبر اور کریم کے کیپٹن بھی شدید پریشانی کا شکار ہیں۔
لاہور میں مارکیٹنگ کے پیشے سے منسلک اعجاز رسول کو چند مال قبل ان کی کمپنی نے حالات خراب ہونے کی وجہ سے نوکری سے فارغ کر دیا تھا۔
ایم اے پاس اعجاز کے پاس ایک گاڑی تھی لہذا انہوں نے اوبر کا کیپٹن بن کر اپنی بیوی اور دو بچوں کا پیٹ پالنے کی ٹھانی۔
اعجاز کے خیال میں انہوں نے غلط فیصلہ کیا، مگر کیا کریں فی الحال کوئی اور نوکری نہیں تو اسی سے کام چلانا پڑے گا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پٹرول کی قیمت بڑھنے کا سب سے زیادہ نقصان کیپٹنز کو ہوا کیونکہ کمپنیوں نے اپنے ریٹس نہیں بڑھائے۔
گذشتہ کچھ عرصے سے ریٹ آٹھ روپے فی کلومیٹر ہے جبکہ پٹرول کی قیمت دو مرتبہ بڑھ چکی ہے۔ جب اعجاز نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کی تو وہ اس وقت ایک رائیڈ لے کر جانے والے تھے۔
انہوں نے کہا: میں نے صبح ایک ہزار روپے کا پٹرول ڈلوایا جس میں سے پانچ سو کا خرچ بھی ہو چکا جبکہ مجھے ابھی تک صرف ڈیڑھ سو روپے کی بچت ہوئی، مطلب اب تک جو پیسے ملے اس میں سے میرے پٹرول کا خرچہ بھی نہیں نکلا، منافع تو دور کی بات ہے۔
ان کا کہنا تھا ہر رائیڈ پر ملنے والے پیسوں پر کمپنی 30 فیصد کٹوتی کرتی ہے، جس کے بعد میرے پاس پٹرول کا خرچہ وغیرہ نکال کر چند روپے ہی بچتے ہیں۔
اعجاز نے یہ بھی بتایا کہ اگر ایک کیپٹن دن میں دس اور ہفتے میں چالیس رائیڈز لے کر جاتا ہے تو اسے ایک ہفتے کے اختتام پر تین ہزار روپے بونس ملتا ہے، مگر کمپنی کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم کیپٹنز کو دن کی دس رائیڈز ملیں جس کی وجہ سے وہ بونس سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
عمیر بن ساجد ایک فیشن میگزین میں کام کرتے ہیں اور اوبر سے ہی دفتر آتے جاتے ہیں۔
اعجاز کے ساتھ عمیر ہی سفر کرنے والے تھے۔ عمیر نے اعجاز کی ساری باتیں سنی اور بولے معاملہ اب پہلے جیسا نہیں رہا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عمیر نے چند روز پرانا قصہ سنایا کہ وہ اوبر کی گاڑی میں بیٹھے تو انہوں نے کیپٹن سے اے سی چلانے کا کہا مگر اس نے صاف جواب دے دیا کہ رائیڈ کینسل کر کے گاڑی سے اتر جائیں مگر میں اے سی نہیں چلاؤں گا کیونکہ اس طرح گاڑی زیادہ پٹرول کھاتی ہے اور اس سے میرا نقصان ہو گا۔
اعجاز نے عمیر کے جواب میں کہا کہ وہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں کیونکہ پٹرول کی قیمت زیادہ ہو گئی ہے، گاڑی اپنی ہونے کی وجہ سے پٹرول بھی خود ہی ڈلوانا پڑتا ہے۔’اگر اے سی چلائیں گے تو ہم تو خالی ہاتھ ہی گھر جائیں گے۔‘
اعجاز کے خیال میں پٹرول کی قیمت بڑھنے کا نقصان صرف کیپٹن کو ہوا کیونکہ سواری اتنے ہی پیسے دے رہی ہے، جتنے آٹھ روپے کے حساب سے بنتے ہیں۔
اعجاز نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ سے کرایہ ادا کرنے والوں کو بٹھانے سے زرا ہچکچاتے ہیں کیونکہ اس طرح پورے پیسے کمپنی کے پاس چلے جاتے ہیں اور انہیں فوری موصول نہیں ہوتے۔
عامر فراز ایک بینکر ہیں، صبح رش میں گاڑی چلانے سے بچنے کے لیے اکثر کریم کے ذریعے دفتر جاتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ریٹ تو فی کلو میٹر آٹھ روپے ہیں مگر پیک آوورز میں ان میں 1.4 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے، جیسے بینک سے واپسی پر افطاری کے وقت پیک آور میں وہ آٹھ کے بجائے تقریباً 12 روپے فی کلو میٹر ادا کرتے ہیں۔
ان کے خیال میں اس سروس کا بہت فائدہ ہے مگر کچھ عرصے سے وہ کیپٹنز کے رویوں میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں مثلا اگر کیپٹن کچھ فاصلے پر ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ رائیڈ کینسل کر دی جائے کیونکہ ان کے خیال میں رائیڈ کا ابتدائی کرایہ اتنا نہیں کہ سواری کوکہیں دور سے جا کر لیا جائے۔
کیپٹن لمبی رائیڈز سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کے دن کی رائیڈز کی تعداد پوری نہیں ہوتی، اسی طرح کریڈٹ کارڈز کا پہلے پوچھتے ہیں اور اگر کیش ہو تو خوشی سے آجاتے ہیں۔
عامر کے خیال میں اوبر اور کریم کے انضمام سے مارکیٹ میں مقابلے کی فضا ختم ہوگئی ہے۔’پہلے دونوں کمپنیاں اپنے اپنے کیپٹنز کو مراعات دیتی تھیں تاکہ وہ اچھی سے اچھی سروس دیں مگر اب چونکہ بے روزگاری اتنی بڑھ گئی ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اوبر یا کریم پر گاڑیاں چلا رہے ہیں اور پٹرول کی قیمت انتہائی ہونے سے انہیں فائدہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
عامر کا کہنا ہے کہ دونوں کمپنیوں کو کیپٹنز کے لیے اپنی فی کلو میٹر ریٹ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ ان کے ساتھ زیادتی نہ ہو اور وہ اپنی سواریوں کو کسی قسم کا دھوکا دے کر ان سے پیسے نہ بٹوریں۔
ان کا خیال ہے کہ اس اقدام سے شاید رائیڈز کم ہو جائیں گی کیونکہ سواری نے بھی اپنی جیب دیکھنی ہے، مگر اس کا فائدہ کمپنی اور کیپٹن دونوں کو کچھ حد تک ضرور ہوگا۔
اس ساری صورتحال پر کریم کی کمیونیکیشن آفیسر مدیحہ جاوید نے، جو اس وقت ملک سے باہر ہیں، کہا کہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی پالیسی بیان جاری نہیں کیا گیا لہذا وہ کمنٹ نہیں کریں گی جبکہ اوبر کے لیگل کونسلر اور سیکرٹری منصور نبی نے بھی ای میل پر سوالات کا جواب نہیں دیا۔
اوبر کے چند دیگر افسران نے بھی اس حوالے سے بات کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ انہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔
اعجاز رسول کہتے ہیں کہ اوبر اور کریم کے کیپٹن مسلسل کمپنی سے اپنے ریٹ بڑھانے کی بات کر رہے ہیں مگر کمپنی کوئی مثبت جواب نہیں دے رہی۔ اسی لیے وہ مشترکہ لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں اور ممکنہ طور پر آئندہ چند روز میں وہ کمپنی دفاتر کے باہر کام چھوڑ ہڑتال کر سکتے ہیں۔