سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے سانحہ آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) سے متعلق جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ اور اس پر اٹارنی جنرل کے کمنٹس کو عام (پبلک) کرنے کا حکم دیا ہے۔
جمعے کو سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی کاپی ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کو بھی فراہم کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے رپورٹ تک رسائی حاصل کی جو 525 صفحات اور چار حصوں پر مشثمل ہے اور اس میں گواہوں کے بیانات اور دیگر دستاویزات بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کمیشن کے سربراہ جسٹس محمد ابراہیم خان نے مرتب کی ہے۔
تمام شواہد اور گواہوں کے بیانات کے بعد کمیشن نے اپنی رپورٹ میں فائنڈنگ دی ہے کہ نیکٹا الرٹ کے باوجود سانحہ اے پی ایس ہونا سکول میں تعینات سکیورٹی کی ناکامی ہے۔
’آرمی پبلک سکول کو ملنے والی دھمکیوں کے باوجود سکیورٹی گارڈز کی تعداد کم اور انہیں درست مقامات پر تعینات نہیں کیا گیا تھا۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’سکیورٹی گارڈز نے مزاحمت کی ہوتی تو شاید جانی نقصان اتنا نہ ہوتا، اس غداری سے سکیورٹی پر سمجھوتہ ہوا اور دہشت گردوں کا منصوبہ کامیاب ہوا جبکہ غفلت کا مظاہرہ کرنے والی یونٹ کے متعلقہ افسران و اہلکاروں کو سزائیں بھی دی گئیں۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’ہمارا شمال مغربی بارڈر بہت وسیع اور غیرمحفوظ ہے۔ شمال مغربی بارڈر سے حکومت اور بین الاقوامی معاہدوں کے تحت مہاجرین کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ افغانستان سے دہشتگرد ممکنہ طور پر مہاجرین کے روپ میں داخل ہوئے جنہیں مقامی سہولت کاری میسر تھی، جو ناقابل معافی ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق: ’اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی ایجنسی چاہے کتنے ہی وسائل کیوں نہ رکھتی ہو ایسے واقعات روکنے میں ناکام ہو جاتی ہے جب اندر سے ہی مدد فراہم کی گئی ہو۔‘
رپورٹ کے مطابق سانحے کی تفصیل:
16 دسمبر 2014 کی صبح دہشت گرد سکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت داخل ہوئے۔
سکیورٹی کی تین پرتیں یعنی گیٹ پر موجود عسکری سکیورٹی گارڈز، علاقے میں گشت کرتی پولیس اور دس منٹ کے فاصلے پر موجود کوئیک رسپانس فورس، اس دھویں کی طرف متوجہ ہو گئی جو منصوبے کے تحت ایک گاڑی کو آگ لگانے کی وجہ سے اٹھا، نتیجتاً سکیورٹی کی توجہ آرمی پبلک سکول سے ہٹ گئی اور دہشت گرد سکول میں داخل ہو گئے۔
صورت حال کا ادراک ہونے پر گشت پر مامور عسکری سکیورٹی گارڈز کی دوسری گاڑی نے پہنچ کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا لیکن دوسرا دستہ یعنی ریپڈ رسپانس فورس اور کوئیک رسپانس فورس کے آنے تک وہ دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہے کیونکہ سکیورٹی پر مامور گارڈز کی صلاحیت دہشت گردوں کو روکنے کے لیے ناکافی تھی۔
حملے سے متعلق نیکٹا نے وارننگ جاری کر رکھی تھی، جس کے مطابق دہشت گردوں کا مقصد فوجیوں کے بچوں کو نشانہ بنانا تھا کیونکہ وہ پاکستانی فوج کو آپریشن ضرب عضب اور خیبر ون سے روکنا چاہتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکول سکیورٹی کی تمام توجہ مین گیٹ پر تھی جبکہ سکول کے پچھلے حصے میں کوئی سکیورٹی اہلکار تعینات نہیں تھا جہاں سے دہشت گرد بغیر کسی مزاحمت کے سکول میں داخل ہوگئے۔
کوئیک رسپانس فورس اور ایم وی ٹی - 2 کے اہلکاروں نے بچوں کے بلاک کی طرف بڑھتے ہوئے دہشت گردوں کی پیش رفت کو روکا جبکہ ایم وی ٹی-1 کو غفلت برتنے پر تحقیقات کے بعد سزا دی جا چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اے پی ایس میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین نے یہ سوالات اٹھائے کہ حملے کے بعد جب ایس ایس جی کمانڈوز پہنچے تو انہوں نے آپریشن جلدی ختم کیوں نہ کیا اور یہ آپریشن صبح سے سہ پہر تک کیوں چلتا رہا؟
انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس قریب ہونے کی وجہ سے کمانڈوز سے پہلے پہنچ چکی تھی لیکن انہیں آرمی پبلک سکول کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ والدین کے یہ بھی تخفظات تھے کہ افسوسناک واقعے کے دن ان سے درست اور بروقت معلومات شئیر نہیں کی گئیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سانحے میں دکھی والدین کی فوج سے شکایات، غلط فہمی اور مناسب رابطے نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔
16 دسمبر 2014 کو پشاور وارسک روڈ پر موجود آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملہ میں سکول ٹیچرز، پرنسپل سمیت 140 بچے ہلاک ہو گئے تھے، جس کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔
آج بھی ہلاک ہونے والے خاندانوں کے بہت سے بچے پشاور آرمی پبلک سکول میں زیر تعلیم ہیں۔