برطانوی فوج کے سربراہ جنرل نِک کارٹر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ مغرب کو افغانستان میں شکست ہوئی۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ افغانستان مستقبل قریب میں اس سے بہتر جگہ ہو سکتی ہے جس کی لوگوں کو توقع ہے۔
کامنز ڈیفنس کمیٹی کے سامنے آخری پیشی کے موقعے پر جنرل نِک کارٹر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں نئے طالبان حکمران ماضی کے سخت مزاج طالبان سے مختلف ہیں اوراس کے نتیجے میں ملک کہیں زیادہ جامع بن سکتا ہے۔ سبکدوش ہونے والے چیف ڈیفنس سٹاف (سی ڈی ایس) نے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا، ’طالبان 2.0 مختلف ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے لوگ شامل ہیں جو جدید طریقے سے حکومت کرنا پسند کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اعتدال پسند افراد کی جانب انتظام سنبھالنے کی صورت میں ’یہ فرض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ افغانستان اگلے پانچ سال میں کوئی دوسرا ملک بننے کی بجائے ایسا ملک نہ بن سکے جس میں زیادہ لوگوں کی شمولیت ہو۔‘
جنرل کارٹر اس روز ارکان پارلیمنٹ سے خطاب کر رہے تھے جب طالبان کی ایسی تصاویر سامنے آئیں جن میں وہ لشکر گاہ میں ایسے ٹرکوں کے ساتھ مارچ کر رہے تھے جن پر لوگوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔ لشکر گاہ افغانستان میں برطانوی کارروائیوں کا مرکز رہ چکا ہے۔ مزید ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ انسانی حقوق کی خواتین کارکنوں کو قتل کیا گیا ہے۔
افغانستان میں خواتین کے ملازمت کرنے پر پابندی ہے اور اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کی تعلیم روک دی گئی ہے۔ طالبان کے مخالفین کو گرفتار کر کے قتل کر دیا گیا جبکہ داعش نے لوگوں کو بڑے پیمانے پر ہلاک کیا ہے جن میں زیادہ تر شیعہ اقلیتی برادری کو ہدف بنایا گیا۔
کابل پر قبضے کے فوری بعد ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران سابقہ تبصرے کہ طالبان محض دیہاتی لڑکے ہیں جو ضابطہ اخلاق کے پابند ہیں، کے سوال پر جنرل کارٹر نے کہا کہ وہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے بیان کا حوالہ دے رہے تھے۔ برطانوی فوج کے سربراہ نے افغانستان کا موازنہ ویت نام کی جنگ کے ساتھ کیا ’جہاں دیہاتی لڑکوں کے ایک اور جتھے نے کامیابی حاصل کی تھی۔‘
جنرل کارٹر نے خیال ظاہر کیا کہ مستقبل میں افغانستان ویت نام کی طرح سیاحتی مقام بن سکتا ہے۔ انہوں نے جارحانہ انداز میں سوالات کرنے والے کمیٹی کے رکن مارک فرانسوا سے سوال کیا، ’کیا آپ چھٹیاں منانے ویت نام جائیں گے؟‘
قدرے حیران رہ جانے والے رکن پارلیمنٹ نے جواب دیا کہ وہ لاس ویگاس جانے کو ترجیح دیں گے۔
اسی ’دیہاتی لڑکوں‘ والے انٹرویو میں جنرل کارٹر نے کہا تھا کہ طالبان دشمن نہیں ہیں۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا، ’میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ مجھے شک ہے کہ لوگ مجھ یہ کہتے سن کر خاصے حیران ہوں گے کہ وہ دشمن نہیں ہیں۔
‘یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ افغان سرزمین پر میرے ایک ہزار فوجی موجود تھے اور ہم 15 ہزار افغان شہریوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے تھے اور ٹھیک اس مخصوص لمحے میں ان لوگوں کے بارے میں کہہ نہیں سکتا تھا جو وہاں میری زندگی کو بڑی آسانی کے ساتھ بہت مشکل بنا سکتے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہت سے ارکان پارلیمنٹ کا اصرار تھا کہ کہ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور نیٹو کو افغانستان میں شکست ہوئی اور طالبان جیت گئے۔ جنرل کارٹر نے جواب دیا کہ’میرا خیال ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت کہ کہ شکست ہو چکی ہے۔ یہاں فتح کو نتائج سامنے رکھ کر جانچنےکی ضرورت ہے فوجی طاقت کو نہیں۔ جب ہم گذشتہ 20 سالوں کو دیکھتے ہیں اوراس کے بعد اگلے 20 سال کے وقت پر نظر ڈالتے ہیں تو مجھے امید ہے کہ افغانستان بہت مختلف ملک ہو سکتا ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ اسے شکست کہنا قبل از وقت ہوگا۔‘
اس سوال کہ پر کہ وہ ان سابق برطانوی فوجیوں سے کیا کہیں گے جنہیں یہ تلخ احساس ہے کہ دو دہائیوں میں دی جانے والی قربانیاں ضائع گئیں اور مسلم شدت پسندوں نے ملک پر قبضہ کر لیا۔ جنرل کارٹر کا کہنا تھا کہ ناکامی سیاسی ہے فوجی نہیں۔
سی ڈی ایس کے بقول، ’تمام کوششیں سیاسی تناظرمیں ہوئی ہیں جوکہ سامنے آچکا ہے۔ مسلح افواج نے جو کچھ میدان جنگ میں حاصل کیا اس پر مجھے بہت فخر ہے۔ بہت چالاک، بے رحم اور نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کرنے والے دشمن نے انہیں کبھی شکست نہیں دی۔‘
جنرل کارٹر نے کمیٹی کو بتایا کہ وہ قطر میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والی کوششوں کے’متوازی راستے‘ کے ساتھ اپنے طور پر بھی امن کی کوششیں کر رہے ہیں کیونکہ ان کے بقول، ’میں ان آوازوں میں سے ایک ہوں جسے وہ سنتے ہیں۔ شائد باقی غیر ملکیوں اورعجیب امریکیوں سے زیادہ ۔‘
جنرل کارٹر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے افغان صدر اور پاکستانی فوج کے ساتھ قریبی تعلق نے انہیں اپنی کوششیں جاری رکھنے کے قابل بنایا۔
امریکی اور برطانوی عہدے دار طویل عرصے تک پاکستان پر الزام لگاتے رہے ہیں وہ سرحد پار طالبان کو ان کی پناہ گاہوں میں امداد فراہم کر رہا ہے۔ دعووًں کے مطابق طالبان نے جس تیز رفتار پیش قدمی کے ساتھ کابل کو تنہا کرتے ہوئے اس پر قبضہ کیا اس کی منصوبہ بندی پاکستانی افسروں کی جانب سے کی گئی تھی۔
اس سوال پر کہ برطانوی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد سے اہل افغانوں کو برطانیہ منتقل کرنے کی فوجی کوشش کتنی کامیاب رہی، سر نِک نے کہا، ’جواب یہ ہے کہ میرے اندازے کے مطابق ایسے شہری اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ میں چاہوں گا کہ تقریباً تین سو ایسے شہری افغانستان سے نکل آئیں لیکن مسئلہ ہے کہ آپ یہ مقصد کس طرح حاصل کرتے ہیں۔‘
© The Independent