بھارت 10 سے 11 نومبر کو ’افغانستان پر دہلی علاقائی سلامتی مذاکرات‘ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ دو روزہ اجلاس قومی سلامتی کے مشیروں (این ایس اے) کی سطح پر منعقد ہو رہا ہے اور اس کی صدارت بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کریں گے۔
افغانستان کے بارے میں اس کانفرنس میں ایران، قازقستان، کرغزستان، روس، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شریک ہوں گے، جن کی نمائندگی ان کے متعلقہ قومی سلامتی مشیر/ سلامتی کونسلوں کے سیکرٹری کریں گے۔
یہ اجلاس کس بارے میں ہے اور بھارت اسے کیوں منعقد کر رہا ہے؟
افغانستان سے متعلق سکیورٹی خدشات نئی دہلی کے ذہن پر حاوی ہیں، یہی وجہ ہے کہ بھارت نے ملک کی موجودہ صورت حال اور مستقبل کے نقطہ نظر پر علاقائی سٹیک ہولڈرز اور اہم طاقتوں کی کانفرنس کا اہتمام کرنے کی کوشش کی ہے۔
بھارت کی اعلیٰ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نیشنل سکیورٹی کونسل سیکرٹریٹ کی جانب سے افغانستان کے ہمسایوں پاکستان، ایران، تاجکستان، ازبکستان، روس اور چین سمیت دیگر اہم کھلاڑیوں کو دعوت نامے بھیجے گئے تھے۔
دوسری جانب پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے تاکہ وہ افغانستان میں بھارت کے مبینہ منفی کردار کے خلاف احتجاج درج کروا سکیں۔ دعوت کو ٹھکراتے اور بھارت کو افغانستان میں ’امن بنانے والا‘ نہیں بلکہ ’بگاڑنے والا‘ قرار دیتے ہوئے انہوں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران سوال کے جواب میں کہا کہ ’میں نہیں جارہا۔ بگاڑنے والا امن قائم کرنے والا نہیں ہو سکتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’میں سمجھتا ہوں کہ خطے کی رکاوٹیں آپ کے سامنے ہیں، اس پر بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک طرف بھارت ہے۔۔ بدقسمتی سے (اس کی وجہ سے) وہاں حکومت کا طرز عمل اور نظریہ، میں نہیں دیکھ رہا کہ یہ (امن) عمل نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے لیے کس طرح آگے بڑھے گا۔‘
معید یوسف نے کہا کہ دنیا نے بدقسمتی سے اپنی آنکھیں بند رکھی ہیں اور بھارت سے اس طرح بات نہیں کی جا رہی، جیسے کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہو جاتا ہے تو یہ ایشیا کے وسط میں رابطے کی راہداری کے طور پر ایک بڑا تجارتی مرکز بن سکتا ہے۔
اگر معید یوسف نے شرکت کے حوالے سے رضامندی ظاہر کی ہوتی تو یہ 2016 کے بعد پاکستان کے کسی اعلیٰ ترین عہدیدار کا بھارت کا پہلا دورہ ہوتا۔
بھارت نے پاکستانی انکار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بدقسمتی ہے لیکن تعجب کا سبب نہیں۔ یہ پاکستان کی سوچ کو ظاہر کرتی ہے۔‘
پاکستان کے بعد چین نے بھی 10 نومبر کو افغانستان پر ہونے والے علاقائی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ شیڈولنگ کی مشکلات کی وجہ سے شرکت کرنے سے قاصر ہے، لیکن بھارتی اخبارات کے مطابق دو طرفہ چینلز کے ذریعے بات چیت کو جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔
افغانوں کی نمائندگی بھی نہیں
اس اجلاس میں افغانستان شریک نہیں ہوگا، لیکن اس کے باوجود بھارت یہ کانفرنس منعقد کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ملک نے اب تک طالبان انتظامیہ کو تسلیم نہیں کیا اور کسی بھی شریک ملک نے نئی دہلی سے افغانستان کو مدعو کرنے کو نہیں کہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وسطی ایشیائی ممالک کے علاوہ روس اور ایران نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی تصدیق کی ہے۔
خیال ہے کہ یہ پہلا موقع ہوگا جب وسطی ایشیا کے تمام ممالک ماسوائے افغانستان کے دو ہمسایہ ممالک کے اس فارمیٹ میں شرکت کریں گے۔
بھارتی اخبارات کے مطابق سابق افغان صدر حامد کرزئی اور چیف مصالحت کار عبداللہ عبداللہ کو بھی مدعو نہیں کیا گیا کیونکہ یہ ’ایجنڈے‘ کا حصہ نہیں تھا۔
دوسری جانب کانفرنس کے روز افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کی قیادت میں ایک سینیئر وفد اسلام آباد کا دورہ کرے گا۔
افغان ترجمان عبد القہار بلخی نے ٹویٹ میں بتایا کہ وفد تعلقات کو بڑھانے، معیشت، پناہ گزینوں اور لوگوں کی نقل و حرکت کے لیے سہولیات کو بڑھانے پر تبادلہ خیال کرے گا۔
بھارت اس اجلاس سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟
افغانستان کے بارے میں مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کرنے کے لیے بھارت کی یہ کوشش ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے لیے مذاکرات کے عمل میں حصہ یقینی بنائے۔
بھارتی اخبار دی انڈین ایکسپریس نے ایک سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ’جب آپ میز پر نہیں ہوتے، تو آپ مینو میں ہوتے ہیں۔‘ یہ کانفرنس بھارت کے میز پر رہنے اور ایجنڈے کا حصہ بننے کی کوشش ہے تاکہ وہ اپنے سکیورٹی اہداف کو یقینی بنا سکے۔
سقوط کابل کے بعد سے بھارت نے عوامی سطح پر طالبان کے ساتھ کوئی باضابطہ رابطہ نہیں کیا ہے۔
نئی دہلی نے واضح کیا ہے کہ طالبان کے افغانستان میں اس سرزمین پر دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، حکومت میں تمام اہم افراد کی جامع نمائندگی ہونی چاہیے اور اقلیتوں، خواتین اور بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔
بھارت نے طالبان کے آنے کے بعد کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا اور ایک طرح سے اس ملک سے کٹا ہوا تھا، تاہم اب وہ وہاں دوبارہ منظرنامے پر آنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تاہم بھارت کابل میں مقامی عملے کی ایک چھوٹی ٹیم کو برقرار رکھے ہوئے ہے جو قونصلر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
اس سے قبل اجلاس
اس فارمیٹ کے تحت اس سے قبل دو اجلاس ستمبر 2018 اور دسمبر 2019 میں ایران میں ہو چکے ہیں۔ کووڈ 19 وبا کی وجہ سے بھارت میں تیسرا اجلاس اب تک نہیں ہوسکا تھا۔
نئی دہلی اسے ’سکیورٹی‘ ڈائیلاگ قرار دے رہا ہے، ’سفارتی‘ ٹریک نہیں کیونکہ یہ ملاقات خارجہ پالیسی ڈائیلاگ نہیں ہے۔ وزرائے خارجہ کی قیادت میں افغانستان پر بہت سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ یہ منفرد ہے کیونکہ علاقائی سٹیک ہولڈرز کے سکیورٹی سربراہ اس میں شریک ہو رہے ہیں۔
اس میں شریک مختلف ممالک کے سکیورٹی سربراہان بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات بھی کریں گے۔
اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں افغانستان میں حالیہ پیش رفت سے پیدا ہونے والی خطے میں سلامتی کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔
بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ متعلقہ سکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے اقدامات پر غور کرے گا اور امن، سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے میں افغانستان کے عوام کی حمایت کرے گا۔