منوج باجپائی نے ہدایت کار رام گوپال ورما کی طرف دیکھا، جنہوں نے ان سے وہ کام کہا جسے کرتے ہوئے منوج باجپائی کی روح کانپ گئی۔
منوج شش و پنج میں تھے کہ رام گوپال ورما کو کیسے بتائیں کہ جو فرمائش وہ کر رہے ہیں اس پر عمل کرتے ہوئے وہ خوف زدہ ہیں اور ابھی سے نہیں بلکہ وہ تو بچپن سے ہی اس خیال سے لرز اٹھتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہی ان کی کمزوری تھی تو غلط بھی نہ ہوگا۔
منوج باجپائی اس بات سے بھی بخوبی واقف تھے کہ اگر انہوں نے اپنی یہ کمزوری بتائی تو فلم سٹاف ان کا کس قدر مذاق اڑائے گا۔
ایک دھڑکا یہ بھی لگا ہوا تھا کہ کہیں ہدایت کار رام گوپال ورما انہیں فلم سے ہی نکال باہر نہ کریں کیونکہ فلم نگری میں یہ مشہور تھا کہ وہ ہر منظر میں اداکار سے 100 فیصد مانگتے ہیں۔
یہ سوچ کر انہیں زیادہ ڈر لگا کیونکہ اس فلم سے قبل انہوں نے رام گوپال ورما کی ہی فلم ’دوڑ‘ میں صرف 35 ہزار روپے میں اس لیے کام کیا تھا کیوں کہ گھر کا باورچی خانہ جو چلانا تھا۔
منوج باجپائی کو یہ فلم شیکھر کپور کی ’بینڈٹ کوئن‘ کی وجہ سے ملی تھی، جس میں ان کا معمولی سا کردار بھی رام گوپال ورما کو پسند آیا، جنہوں نے پہلے انہیں ’دوڑ‘ میں اور پھر 1998 میں بننے والی فلم ’ستیہ‘ میں شامل کیا، جس کی عکس بندی اس وقت جاری تھی۔
درحقیقت ’ستیہ‘ ایک سیدھے سادھے نوجوان کی کہانی تھی جو معاشرتی ناانصافیوں اور زیادتیوں میں ایسا پِستا ہے کہ مجبور ہو کر جرم کی دنیا میں قدم رکھ دیتا ہے۔
فلم کے ہیرو یعنی ’ستیہ‘ کی یہ داستان تھی، جس میں اس کے جرائم کے ایک ساتھی کا کردار منوج باجپائی ادا کررہے تھے۔
منوج بھیکو مہاترے کے روپ میں جلوہ گر ہو رہے تھے۔ ہدایت کار رام گوپال ورما ’رنگیلا‘ بنانے کے بعد اب انڈر ورلڈ مافیا کے گرد گھومتی فلمیں بنانے پر زیادہ توجہ دے رہے تھے، ’ستیہ‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
منوج باجپائی کو یہ کردار اس لیے بھی پسند آیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس میں انہیں اداکاری دکھانے کی گنجائش مل رہی ہے۔ ان کا تعلق ریاست بہار سے تھا لیکن اس میں وہ مہاراشٹر میں رہنے والے گینگسٹر بنے تھے، اسی لیے ان کا لب و لہجہ کہیں سے بھی یہ چغلی نہیں کھا رہا تھا کہ وہ اس ماحول سے دور دور تک رشتہ نہیں رکھتے جو دکھایا جارہا ہے۔
فلم میں ان کے ساتھ رام گوپال ورما کی من پسند ہیروئن ارمیلا تھیں، وہیں منوج باجپائی کی جوڑی شفالی چھایا کے ساتھ بنائی گئی تھی۔ درحقیقت منوج باجپائی کا یہ کردار ایسا ہی تھا، جیسے فلموں میں عام طور پر دوست کا ہوتا ہے۔
انوراگ کشپ جو بعد میں مشہور ہدایت کار بنے، وہ ’ستیہ‘ کے رائٹرز میں سے ایک تھے، جن سے منوج باجپائی کی عکس بندی کے دوران دوستی ہوگئی تھی۔
انہیں منوج باجپائی نے ڈرتے ڈرتے اپنے دل کا حال بتایا کہ انہیں بلندی سے ڈر لگتا ہے اور یہ خوف نجانے کیسے ان سے بچپن سے چمٹا ہوا ہے۔ انوراگ کشپ کے چہرے پر ذومعنی مسکراہٹ تھی۔ جو سمجھ گئے کہ وہ یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں۔
فلم کے ایک موڑ پر بھیکو مہاترے یعنی منوج باجپائی کو ممبئی کے سمندر کے ٹیلے کی اونچائی کے بالکل کونے پر کھڑے ہو کر اپنے دشمنوں کے ختم کرنے کے بعد یہ مکالمہ ادا کرنا تھا ’ممبئی کا کنگ کون؟ ۔۔۔ بھیکو مہاترے!‘ اس منظر کو رام گوپال ورما قریبی ٹیلے سے عکس بند کرتے، جس میں یہ دکھانا مقصود تھا کہ بھیکو مہاترے ہی ممبئی کا اصل انڈر ورلڈ بادشاہ ہے جو چیخ چیخ کر اپنے جذبات کو بھرپور انداز میں بیان کررہا ہے۔
رام گوپال ورما تک جب یہ بات پہنچی کہ منوج باجپائی کو اونچائی سے ڈر لگتا ہے تو انہوں نے تھوڑی دیر تو سوچا اور پھر مسئلے کا حل بھی منٹوں میں نکال لیا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ منظر تو عکس بند ویسے ہی ہوگا جیسے سکرین پلے میں لکھا ہے۔ اس میں کسی صورت کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، ہاں اگر منوج باجپائی کوبلندی پر پہنچ کر چکر آتے ہیں تو رسیوں سے ان کے پیر ایسے باندھے جائیں گے کہ وہ کیمرے کی گرفت میں نہ آئیں۔ منوج باجپائی پھر بھی ڈر رہے تھے لیکن رام گوپال ورما پرامید تھے کہ وہ یہ منظر عکس بند کرلیں گے۔
منوج باجپائی کے پیر رسیوں سے باندھے گئے اور جیسے ہی وہ اس بلندی پر پہنچے تو دہشت کے مارے مکالمے ہی بھول گئے۔
ایک دو دفعہ یہ ہوتا رہا تو رام گوپال ورما کے چہرے کے تیور بھی بدلنے لگے، غصہ تو انہیں بہت آرہا تھا لیکن وہ نہیں چاہتے تھے کہ سیٹ پر کوئی بدمزگی ہو۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے منوج باجپائی کا یہ خوف دور کریں۔
پھر انہیں ایک اور آئیڈیا آیا، جبھی انہوں نے کہا کہ منوج باجپائی مکالمات کو بھول جائیں، جو من میں آرہا ہے بول دیں، ڈبنگ جب کرائیں گے تو اوریجنل مکالمات ہی ریکارڈ کروا دیں گے۔
منوج باجپائی کی جان میں جان تو آئی لیکن پھر یہ سوچ کر ہلکان ہوئے کہ ایک بار وہ ہوں گے اور اونچائی۔ بہرحال اس بار بھی ان کے پیر رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ وہ بھی اس لیے کہ اگر ان کے قدم لڑکھڑائیں تو انہیں گرنے سے بچایا جاسکے۔
رام گوپال ورما نے ’لائٹ کیمرا ایکشن‘ بلند آواز میں کہا اور ادھر منوج باجپائی کے لبوں پر جو کچھ آرہا تھا، وہ بے تکان بولتے چلے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رام گوپال ورما جو چاہتے تھے، وہ بڑی تگ و دو اور جدوجہد کے بعد ہوہی گیا۔ ڈبنگ کے مراحل آئے تو منوج باجپائی نے وہی مکالمہ ادا کیا کہ ’ممبئی کا کنگ کون بھیکو مہاترے‘۔
اب نجانے اس مکالے میں کیا جادو تھا کہ فلم کی نمائش کے بعد یہی مکالمہ سب سے زیادہ ہٹ ہوا۔
تین جولائی 1998 کو سینیما گھروں کی زینت بننے والی ’ستیہ‘ نے جیسے منوج باجپائی کی قسمت کا رخ ہی بدل دیا۔ یہ بھی کیسی دلچسپ بات ہے کہ فلم کے ہیرو جے ڈی چکرورتی سے زیادہ منوج باجپائی کا کردار عوامی مقبولیت حاصل کرگیا۔
وہ مکالمہ جس کی عکس بندی کے وقت منوج باجپائی کے اوسان خطا تھے۔ ہر ایک کے لبوں پر تھا۔ اگلے برس ہونے والے فلم فیئر ایوارڈز میں جہاں ’ستیہ‘ نے کریٹکس ایوارڈ کی کیٹیگری میں بہترین فلم کا اعزاز حاصل کیا، وہیں منوج باجپائی اور شفالی چھایا کو بہترین اداکار اور بہترین اداکارہ کے ایوارڈز بھی ملے جبکہ اس فلم نے مجموعی طور پر چھ ایوارڈز حاصل کرکے سب کو حیران کردیا۔ منوج باجپائی نے اسی فلم پر بھارت کا قومی ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
منوج باجپائی کا فلم ’ستیہ‘ کی کامیابی اور شہرت کے بعد ایک نیا دورشروع ہوا۔ ایک صرف رام گوپال ورما ہی نہیں بیشتر ہدایت کاروں کی تخلیقات میں اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن آج بھی ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے مناظر کی عکس بندی سے حتی الامکان دور رہا جائے، جن میں انہیں بلندی پر کھڑا ہوتا دکھایا گیا ہو کیونکہ بچپن کا اونچائی والا خوف آج تک ان کے دل ودماغ پر حاوی ہے۔