اقوام متحدہ کے ’فریم ورک کنوینشن آن کلائمٹ چینج‘ کے زیراہتمام 26ویں ’کانفرنس آف دا پارٹیز‘ یا (کوپ26) کانفرنس سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں 31 اکتوبر سے لے کر 12 نومبر تک جاری رہے گی۔
اس عالمی کانفرنس میں دنیا کے 197 ممالک کے رہنماوًں کے ساتھ ساتھ پاکستانی مندوب نے بھی شرکت کرتے ہوئے کرہ ارض کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے سفارشات اور تجاویزات پیش کیں۔
موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ دنیا کے 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کے باعث منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے کچھ مطالبات بھی کیے ہیں۔
پاکستان کے وعدے اور مطالبات
حکومت پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کے ’فریم ورک کنوینشن آن کلائمٹ چینج‘ سیکریٹریٹ کو کانفرنس سے قبل 21 اکتوبر کو نیشنلی ڈٹرمنڈ کنٹری بیوشن (این ڈی سیز ) کی تفصیلات جمع کرائی گئیں۔
پیرس اگریمنٹ کے تحت دنیا کے ہر ملک کو کانفرنس کے دوران گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اپنا تفصیلی منصوبہ پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔
پاکستان نے پہلی بار این ڈی سیز 2016 میں جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا پاکستان میں 2015 سے 2030 تک ملک میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 300 فیصد اضافہ ہو گا۔
اس سے پہلی این ڈی سیز میں پاکستان نے 2030 تک صرف 20 فیصد اخراج کو کم کرنے کا وعدہ کیا جو عالمی مالیاتی مدد سے مشروط تھا۔
ایسی غیر یقینی والی این ڈی سیز جمع کرانے پر پاکستان عالمی مالیاتی مدد لینے میں ناکام رہا، مگر اس بار اپنے ترمیم شدہ این ڈی سیز میں پاکستان نے پہلے کے مقابلے میں بہتر انداز میں اپنے وعدے کیے کہ کس طرح پاکستان گیسوں کے اخراج کو کم کرے گا۔
اپنی این ڈی سیز میں پاکستان نے اپنی گیسوں کے اخراج کو پہلے سے کم کرنے والے اقدامات کا بھی ذکر کیا ہے، جس میں گذشتہ تین سالوں سے جاری بلین ٹری سونامی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ مستقبل میں کاربن لیول کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
این ڈی سی میں پاکستان نے کہا ہے کہ تین بلین ٹری سونامی کی وجہ سے آنے والے 10 سالوں میں 148۔76 ملین ٹن کاربن کم کرنے میں مدد کرے گا۔
اس کے علاوہ کوئلے سے بجلی بنانے والا کوئی نیا منصوبہ نہیں لگیا جائے گا۔ مزید یہ کہا گیا کہ موجودہ کول پلانٹس میں برآمد شدہ کوئلہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان کی این ڈی سیز کے مطابق اگر اس منصوبے پر مکمل طور عمل ہو جاتا ہے تو اس اکیلے منصوبے سے 2040 تک پاکستان میں 50 کروڑ ٹن کاربن کم کی جائے گی۔
ان میں یہ بھی شامل تھا، '2030 تک پاکستان اپنی ضرورت کی بجلی کا 60 فیصد متبادل ذرائع سے پیدا کر لے گا جس سے 2.2 کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی ہو گی۔
اس کے علاوہ 2030 تک 30 فیصد گاڑیوں کو بجلی پر منتقل کر دے کا جس سے گیسوں کے اخراج میں بھی کمی واقع ہو گی۔ پاکستان 2030 تک اپنے 15 سے 17 فیصد علاقوں کو پروٹیکٹیڈ قرار دے گا۔‘
2009 میں کوپن ہیگن میں منعقد ہونی والی کوپ15 کانفرنس کے دوران کلائمٹ فنانس کی مد میں دنیا کے امیرممالک نے 2020 تک ترقی یافتہ ممالک کو موسمی تبدیلی سے نمٹنے میں مدد کے لیے سالانہ ایک سو ارب امریکی ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔
مگرامیر ممالک کے اس وعدے پر مکمل طور پرعمل نہ ہو سکا۔ اس وقت امیر ممالک کی جانب سے 80 ارب امریکی ڈالرز دیے جا رہے ہیں۔
اس لیے گلاسگو میں ہونے والی کوپ26 میں دیگر معاملات کے ساتھ کلائمٹ فنڈ ایک اہم موضوع کے طور پر زیربحث رہے گا۔
جبکہ پاکستان نے گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ملک ہونے کی حیثت سے دنیا سے مالیاتی مطالبات بھی کیے ہیں تاکہ گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں رقم کے علاوہ دنیا کی مدد بھی لی جائے۔
پاکستان کی جانب سے جمع کی گئی این ڈی سیز میں پاکستان نے دنیا سے 2015 اور 2030 کے درمیان اپنے گیسوں کا 50 فیصد کم کرنے کا وعدہ کیا ہے، جس میں 15 فیصد پاکستان اپنے خرچے پر اخراج کم کرے گا، جبکہ 35 فیصد اخراج کے کم کرنے کے لیے پاکستان کو عالمی مالیاتی مدد درکار ہوگی۔
پاکستان نے اپنی گرین انرجی ٹرانزیکشن کے لیے عالمی کلائمٹ فنانس سے 101 ارب امریکی ڈالرز کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان میں گروتھ ریٹ تین فیصد کے برابر ہے۔
ایسے میں گیسوں کے اخراج میں کمی، انرجی مکس کی بہتری، اور ماحول دوست ٹرانسپورٹ کے لیے عالمی مالیاتی مدد درکار ہوگی۔
ماہر ماحولیات اوراسلام آباد کی تھنک ٹینک ایس ڈی پی آئی سے منسلک مریم شبیر عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’پاکستان کو کوپ26 میں دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہم دنیا بھر میں موسمی تبدیلوں سے متاثر 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔
’پاکستان سیلاب، گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ، سیلاب (گلوف)، سطح سمندر میں اضافے، قحط سالی، فضائی آلودگی جیسی آفات کے انسانی صحت اور معاشیات پر پڑنے والے اثرات سے نمٹ رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا ’پاکستان امیر ممالک کی جانب سے کیے گئے (کاربن کے) اخراج کے باعث موسمی تبدیلی کا شکار ملک ہے۔
’اس کے باجود اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور تین بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں کے علاوہ دنیا سے متبادل بجلی، گاڑیوں کو بجلی پر منتقل کرنے جیسے وعدے کر رہا ہے۔‘
مریم نے بتایا، ’پاکستان کو سالانہ چھ سے 14 ارب امریکی ڈالرز کی ضرورت ہے تاکہ وہ موسمی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے ساتھ پیرس معاہدے کے تحت دنیا سے گیسوں کے اخراج کی کمی کے وعدے پورے کر سکے۔‘