افغانستان میں کوئی گروہ پاکستان کے خلاف کام نہیں کر رہا ہے: متقی

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد سے پورا افغانستان ایسے گروہوں سے پاک کر دیا گیا ہے، اور اب افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ ان کے ملک میں کوئی ایسا گروہ موجود نہیں ہے جو پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہو۔

پاکستان کے تین روزہ دورے پر آئے امیر خان متقی نے جمعے کو تھینک ٹینک اسلام آباد سٹریٹیجک سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ میں ایک خطاب میں کہا: ’ایسا کوئی ثبوت یا شہادت موجود نہیں ہے جس سے پاکستان مخالف گروہوں کی افغانستان میں موجودگی ثابت ہوتی ہو۔‘

افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان کے آنے کے بعد سے پورا افغانستان ایسے گروہوں سے پاک کر دیا گیا ہے، اور اب افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی ہے۔

اسلام آباد اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان حالیہ معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت اس سلسلے کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کرتی رہے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکومت کی پوری کوشش ہے کہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیا جائے۔

امیر خان متقی نے کہا کہ اس خطے نے گذشتہ 40 سالوں کے دوران بہت نقصان اٹھایا ہے اور اب وقت آ گیا ہےکہ اس سلسلے کو بند کیا جائے۔

افغانستان میں تمام گروہوں پر مشتمل حکومت بنانے سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ موجودہ کابل انتظامیہ میں تمام افغان قومیتوں کے علاوہ ملک کے ہر علاقے کے لوگ بھی شامل ہیں۔

افغان وزیر خارجہ نے افغانستان میں خواتین کے حقوق کی پامالی کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک میں خواتین پوری طرح آزاد ہیں، اور ان کی بڑی تعداد زندگی کے مختلف شعبوں میں کام بھی کر رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں کوئی خاتون قیدی موجود نہیں ہے، نہ کوئی خاتون جس کو نوکری سے ہٹایا گیا ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ میڈیا بعض چیزوں کو غیر ضروری طور پر غلط انداز میں پیش کر رہا ہے۔ ’اس کے بالکل برعکس انسانی حقوق کے حوالے سے صورت حال بالکل ٹھیک ہے۔‘

کابل میں عبوری طالبان انتظامیہ کو تسلیم کیے جانے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ایک قوم، ملک اور حکومت کے قیام کےلیے جو بین الاقوامی شرائط ہیں وہ افغانستان میں اس وقت پوری ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے پاس اس وقت کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ایک قانونی حکومت کی حیثیت سے تسلیم نہ کیا جائے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود کابل میں مختلف ملکوں کے سفارت خانے کام کر رہے ہیں جبکہ افغان سفارت کار بھی دوسرے ممالک میں موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا جا رہا لیکن دنیا اس کے ساتھ کام کر رہی ہے اور اسی حکومت کو افغانستان کی قانونی حکومت تصور کرتی ہے۔‘

امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ ماضی کے برعکس افغانستان میں اس وقت کوئی سیاسی قیدی موجود ہے نہ کسی پر کوئی مخصوص پابندی لگائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ افغانستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں ان کی معاشی وجوہات ہیں- ’کوئی افغان باشندہ افغانستان سیاسی وجوہات کی بنا پر نہیں چھوڑ رہا ہے۔‘

ایک یورپی ڈپلومیٹ کے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہہ افغابستان میں مستقل حکومت بنانے کی غرض سے کام جاری ہے، اور اس سلسلے میں پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔

امیر خان متقی نے کہا کہ افغانستان میں ایسا نظام لایا جائے گا جو افغان افراد کے فائدے میں ہو اور ملک میں امن کے قیام کو یقینی بنائے۔

’ہم دنیا یا کسی دوسرے ملک کی خواہش کے مطابق اپنا نظام نہیں بنائیں گے، بلکہ خالصتاً افغان عوام کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کریں گے۔‘

امیر خان متقی نے خطے کے ممالک اور خصوصاً پاکستان کے تجارتی روابط بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

ایک دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کون سا کام کریں کہ دنیا اور خصوصاً امریکہ کو ہماری حکومت کے قانونی ہونے کا یقین آ جائے۔‘

اپنی تقریر کا اختتام امیر خان متقی نے ایک لطیفے پر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا انہیں ان کے ہاتھوں مستقبل میں ہونے والے گناہوں کی سزا دینا چا رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا