گریڈ سکول میں چھپ چھپ کر بوسہ لینا، نان سٹاپ ٹیکسٹنگ اور پروم میں ایک ساتھ تصاویر۔ یہ نوجوانوں کے کسی ناول میں لکھی گئی ایک ہائی سکول میں ہونے رومانوی کہانی کی طرح لگتا ہے۔
امریکی ریاست نیو یارک کے ساحلی قصبے لانگ آئی لینڈ میں پیش آنے والی کہانی کے اس جوڑے میں ایک خوبصورت نوجوان ٹریک سٹار تھیں اور دوسرے ان سے عمر میں دو گنا بڑے کوچ۔
برٹنی روہل نے مبینہ طور پر گرومنگ اور بدسلوکی کے ایک خوفناک سلسلے کا انکشاف کیا ہے جو ان کے بقول ان کے ساتھ اس وقت شروع ہوا جب وہ 16 سال کی عمر میں بے بی لون ہائی سکول میں زیر تعلیم تھیں اور جو بالا آخر جنسی نوعیت میں بدل گیا۔
اب 28 سال کی عمر میں برٹنی نے اس حوالے سے تفصیلات بتائی ہیں کہ کیسے ان کے شادی شدہ استاد نے مبینہ طور پر ابتدائی طور پر ان سے تعلق جوڑنے اور قابو پانے کے لیے کیسے روایتی ہتھکنڈے استعمال کیے، جیسے برٹنی کو یہ یقین دلانا کہ باقی سب انہیں ’نظر انداز‘ کرتے ہیں اور وہ واحد شخص ہیں جو واقعی ان کے گرویدہ ہیں۔
برٹنی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’اگر لڑکوں کو آپ میں زیادہ رومانوی دلچسپی نہ ہو تو آپ کو ناپسندیدہ ہونے اور ایک طرح سے نظر انداز ہونے جیسا محسوس ہوتا ہے اور پھر کوئی بااختیار شخص آپ میں دلچسپی ظاہر کرے تو یہ واقعی ایک منفرد نفسیاتی حربہ ہو سکتا ہے۔‘
یونیورسٹی آف فلوریڈا سے کلینیکل سائیکالوجی سے پی ایچ ڈی کرنے والی برٹنی کہتی ہیں کہ اتنی چھوٹی عمر میں اور ایک قابل بھروسہ بالغ شخص کے زیر اثر وہ اس بات سے بے خبر تھیں کہ اس وقت کیا ہو رہا تھا لیکن اس سب کا اثر ان پر پڑتا رہا۔
ان کے بقول: ’ایک بار کوئی جو آپ کی رہنمائی کرتا ہے پھر وہ آپ کو اس طرح سے دھوکہ دے تو کسی پر بھروسہ کرنا واقعی مشکل ہوتا ہے۔‘
برٹنی نے بتایا کہ استاد نے ان سے قریبی رشتہ قائم کر لیا اور دونوں کے درمیان نان سٹاپ ٹیکسٹنگ ہوتی تھی۔ ایسی قربت جس سے بعض اوقات ان کے حلقوں میں لوگوں کے سوال بھی اٹھتے تھے۔
ایک استاد، جو ہردل عزیز کوچ بھی تھے، طلبہ کو اچھے کالجوں میں داخلے میں مدد کرنے کے لیے مشہور تھے۔ انہوں نے برٹنی کو یونیورسٹی آف ڈیلاویئر میں جانے کا ارادہ ترک کرنے پر منایا اور اس کی بجائے فورڈہم جانے کے لیے راضی کیا جو صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔
برٹنی نے رواں ہفتے بے بی لون بورڈ آف ایجوکیشن کو بھیجے گئے ایک خط میں لکھا کہ گریجویشن کے بعد کے دنوں میں جب وہ 17 سال کی ہی تھیں، ٹیچر نے ’مجھے فٹ بال سٹیڈیم کے سٹینڈ پر بٹھایا اور بتایا کہ وہ میرا کنوارا پن ختم کرنا چاہتے ہیں اور یہ صرف وہ ہی کر سکتے ہیں کیونکہ کوئی اور مجھ سے اس طرح پیار نہیں کر سکتا۔‘
باریک بینی سے ترتیب دی گئی ٹائم لائن میں وہ بتاتی ہے کہ کیسے کوچ نے ان کے 18 سال کی عمر تک پہنچنے کا انتظار کیا اور اگلے ہی ہفتے آدھی رات کو ان کی گلی میں پہنچ گئے اور انہیں اپنی کار میں آنے کے لیے کہا جہاں انہوں نے جنسی تعلق قائم کیا اور جس سے انہیں تکلیف بھی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد دھوکہ دہی اور کنٹرول پر مبنی ایک ایسے تعلق کا آغاز ہوا جو کئی سال چلتا رہا اور جس نے بنیادی طور پر ان کے کالج کے تجربے کو تباہ کر دیا۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ انہیں بورڈ کے پیر کے اجلاس میں اپنا موقف بیان کرنے کے لیے پہلے ہی مدعو کیا گیا ہے۔
برٹنی کہتی ہیں کہ وہ برسوں سے یہ سچ سامنے لانے کے بارے میں سوچ رہی تھیں لیکن اس ہفتے ایک اور ٹیچر کو حال ہی میں بے بی لون ہائی سکول سے فارغ کیے جانے کے بعد انہیں اس قدم کے لیے حوصلہ ملا۔
برٹنی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میں نے سوچا یہ اب نہیں تو کبھی نہیں والی صورت حال ہے کیوں کہ یہ خبر سرخیوں میں ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ برسوں سے انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی بھی ان کی کہانی پر یقین کرے گا۔ ’میں نے سوچا کہ اگر میں اسے بتا بھی دوں تو بے بی لون میں بہت سی قوتیں ہیں جو ہر اس چیز کو دبا دیتی ہیں جس سے شہر کے تاثر کو خطرہ ہو۔‘
مذکورہ ٹیچر نے اس ماہ استعفیٰ دے دیا۔ برٹنی کے مطابق جب انہوں نے 12 سال کی عمر میں اسی سکول میں داخلہ لیا تب بھی انہوں نے ان ٹیچر کے متعلق افواہیں سنی تھیں۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ دوسرے طلبہ نے انہیں اس ٹیچر سے دور رہنے کی تنبیہ کی تھی اور ان لڑکیوں، جن کے ٹیچر کے ساتھ ملوث ہونے کی افواہیں تھیں، کو ’جسم فروش‘ اور ’گھر توڑنے والی‘ کہا جاتا تھا۔
وہ کہتی ہیں: ’میرے ہائی سکول کے دور کے بعد سے ہماری سوچ میں کافی بدلاو آیا ہے کہ ہم بدسلوکی، گرومنگ اور نامناسب طرز عمل کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور متاثرہ افراد کو مورد الزام ٹھہرایا جانا بھی کم ہوا ہے، لیکن جب میں سکول میں تھی تو تب یہ بہت عام تھا۔‘
حالیہ کیس میں سپرنٹنڈنٹ لنڈا روزی نے گذشتہ ماہ والدین کو ایک خط بھیجا جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ’پریشان کن الزامات‘ کے بعد ٹیچر کو گھر بھیج دیا گیا ہے اور معاملے کی داخلی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
سفولک پولیس نے بعد میں کہا کہ اس کیس میں کوئی مجرمانہ سرگرمی نہیں پائی گئی لیکن ٹیچر کی ملازمت ختم کر دی گئی ہے اور ان کا استعفیٰ آٹھ نومبر سے نافذ العمل ہو گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد سکول اور کمیونٹی کے اراکین کی جانب سے اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایک بھرپور بحث شروع ہو گئی اور کہا جا رہا ہے کہ بہت سے لوگ اس صورت حال اور اسی طرح کے حالات کے بارے میں سالوں سے جانتے تھے۔
برٹنی خود کم از کم ایسے چھ ناموں کے بارے میں جانتی ہیں جن کے خلاف طالبات کے ساتھ نامناسب رابطوں کی تفتیش کی جانی چاہیے تھی یا اب بھی ہونی چاہیے۔
برٹنی کی سابقہ ساتھی اور دوست میک کینزی ویکرز نے رواں ہفتے اپنی فیس بک پروفائل پر لکھا کہ ’برٹنی نے ہائی سکول کے دوران اور اس کے بعد جس گرومنگ، ذہنی ہتھکنڈے اور جن جنسی حرکات کو برداشت کیا، وہ میرا دل توڑ رہے ہیں بلکہ میں بہت ٹوٹا ہوا محسوس کر رہی ہوں۔‘
انہوں نے اس میں اپنی یادیں شامل کیں جو ایسے شخص کے بارے میں تھیں ’جسے وہ نہ صرف کوچ بلکہ ایک دوست اور استاد مانتی تھیں۔‘
’مجھے ایسے انفرادی پریکٹس سیشن، عملے، طلبہ اور ان کی شادی کے حوالے سے ہونی والی بات چیت یاد ہے۔ اس سب سے اعتماد اور ہم بمقابلہ وہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ خیال رکھنے کے لبادے میں چھپی استعمال کرنے کی کوششیں، یہ سب بہت برا اور نامناسب تھا۔‘
ایک بیان میں بے بی لون بورڈ آف ایجوکیشن کا کہنا تھا کہ ’یہ شخص ہمارے سابقہ ملازم ہیں۔ جب ہمیں اس حوالے سے معلومات ملیں گی تو ہم انہیں ایک بیرونی خصوصی کونسل کو فراہم کریں گے جو اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں اور وہ اس حوالے سے سپرٹنڈنٹ اور بورڈ آف ایجوکیش کو آگاہ کریں گے۔‘
سابقہ استاد سے رابطے کی دی انڈپینڈنٹ کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
برٹنی، جنہوں نے اپنا خط سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کیا، نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ انہیں ایسے واقعات سے متاثر افراد کی آن لائن کافی حمایت ملی۔
ان کا کہنا تھا: ’میں چاہتی ہوں زیادہ سے زیادہ لوگ اس بارے میں جان سکیں۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ان کے دوست اور اہل خانہ جنہیں اس بارے میں کئی برس بعد معلوم ہوا وہ بھی بظاہر ان علامات کو دیکھ رہے تھے۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’اس بارے میں ہماری سمجھ بوجھ کافی بدل چکی ہے۔ ہم بڑے ہو چکے ہیں اور اب عمر کے اس حصے میں ہیں جس میں انہوں نے یہ سب کرنا شروع کیا تھا۔ میرے خیال میں کافی سارے لوگ اس بارے میں سوچتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے۔ ہاں یہ حقیقت ہے۔ اب ہم اسے دیکھ سکتے ہیں۔‘
وہ نہ صرف بے بی لون کو اس حوالے سے زیادہ متحرک ہوتا دیکھنا چاہتی ہیں تاکہ اس روایت کو بدلا جا سکے بلکہ وہ ان انتباہی اشاروں کی وسیع پیمانے پر پہچان بھی چاہتی ہیں۔
ان کا انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا: ’میں سوچتی ہوں کہ یہ ہر جگہ موجود ہے۔ میرے خیال میں، بدقسمتی سے جہاں پر بچے اور بالغ افراد موجود ہوں تو ہمیں اس حوالے سے اس جگہ پر کڑی نظر رکھنی ہو گی۔‘
© The Independent