امریکہ کے صدر جوبائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان پیر کو ویڈیو لنک کے ذریعے ہونے والی ملاقات سے قبل تائیوان کے نازک مسئلے پر دونوں ملکوں کے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان سخت وارننگز کا تبادلہ ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ اور چینی صدور کی ورچوئل ملاقات تائیوان کے معاملے پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں ہونے جا رہی ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارت، انسانی حقوق اور دوسرے معاملات پر بھی کشیدگی پائی جاتی ہے۔
بیجنگ خود مختار جمہوری تائیوان کی ملکیت کا دعوے دار ہے جب کہ تائیوان خود کو چین کا حصہ تسلیم نہیں کرتا۔ اس معاملے پر امریکہ اور اس کے اتحادی چین کے مقابلے میں تائیوان کی حمایت کرتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے امریکہ چین سربراہ کی ملاقات کی تیاریوں پر بات چیت کے لیے جمعے کو اپنے چینی ہم منصب وانگ ژی کوفون کیا۔ اس موقعے پر امریکی وزیر خارجہ نے چینی وزیر خارجہ کو تائیوان پر بیجنگ کے ’فوجی، سفارتی اور معاشی دباؤ’پر امریکہ کے تحفظات سے آگاہ کیا۔
چینی وزیر خارجہ نے امریکی وزیر خارجہ کو ان امریکی اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات کے حوالے سے آگاہ کیا جو تائیوان کی خود مختاری کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
واشنگٹن نے 1979 میں سفارتی سطح پر تائی پے کی بجائے بیجنگ کو تسلیم کرنا شروع کر دیا تھا لیکن اسی سال امریکی کانگریس میں ایک قانون منظور کیا گیا جس کے تحت امریکہ کی جانب تائیوان کو اس کے دفاع کی خاطر ہتھیار فراہم کرنےکی اجازت دی گئی تھی۔
امریکی حکومت احتیاط سے کام لیتی ہے کہ یہ ظاہر نہ ہو کہ وہ تائیوان کو تسلیم کرتی ہے لیکن تائیوان کے معاملے میں اسے کانگریس کے دونوں ایوانوں کی وسیع حمایت حاصل ہے۔ امریکی قانون سازوں کے وفد نے اس ماہ تائیوان کا دورہ کیا جس پر بیجنگ نے برہمی کا اظہار کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی اور چینی وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بارے میں چین کی جانب سے ہفتے کو جاری ہونے والی تفصیل میں وانگ نے بلنکن کو بتایا کہ ’تائیوان کی افواج آزادی سے چشم پوشی یا ان کی حمایت سے پوری آبنائے تائیوان کے امن کو نقصان پہنچے گا اور بالآخر بات وہیں آئے گی جہاں سے شروع ہوئی۔‘
چین نے حالیہ سالوں میں تائیوان کے قریب اپنی فوجی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔ اکتوبر کے اوائل میں درجنوں چینی طیارے تائیوان کے فضائی دفاع کے زون میں داخل ہوئے۔ واشنگٹن اس کارروائی کو چین کی جارحیت قرار دیتے ہوئے کئی بار تائیوان کے لیے اپنی حمایت کا عندیہ دے چکا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے مقابلے میں صدر جوبائیڈن کا بیجنگ کے معاملے میں مؤقف زیادہ تر سخت ہے تاہم دونوں ادوار کی انتظامیہ نے ابھرتے ہوئے چین کو 21 ویں صدی کے سب سے بڑے چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے۔
چین، تائیوان تنازع ہے کیا؟
چین، تائیوان کو اپنے ملک کا الگ ہوجانے والا صوبہ کہتا ہے جو بالآخر دوبارہ ملک کا حصہ بن جائے گا۔ لیکن تائیوان میں بہت سے لوگوں کو چین کے مؤقف سے اختلاف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ آزادی کا سرکاری اعلان نہ ہونے کے باوجود وہ ایک الگ قوم ہیں۔
دوسری طرف چین کے سرکاری ریکارڈ میں تائیوان کا ذکر 239 میں آتا ہے۔ اس زمانے میں چین نے خطے پر تحقیق کے لیے ایک ٹیم سمندر میں روانہ کی تھی۔
یہی وہ تاریخی ریکارڈ ہے جس کی بنیاد پر چین، تائیوان پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ پرتگالیوں کی نوآبادیاتی دور کے کچھ عرصے کے بعد 1624 سے 1661 تک تائیوان 1683 سے لے کر 1895 تک چین کے چِنگ خاندان کے زیرِ انتظام رہ چکا ہے۔
1895 میں جاپان نے چین کے خلاف پہلی جنگ میں فتح پائی۔ تائیوان کا کنٹرول چِنگ خاندان کے ہاتھ سے نکل کر جاپان کے پاس چلا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان نے ہتھیار ڈالنے کے بعد اس نے چین کے مقبوضہ علاقے خالی کر دیے۔
1949 میں چین کی کمیونسٹ پارٹی نےانقلابی حکومت قائم کی۔ اس سے پہلے چین کی آبادی کا ایک بڑا دھڑا جو انقلاب کے خلاف لڑ رہا تھا وہ فرار ہو کر چین کے مشرقی جنوبی سمندر میں واقع جزیرے میں پناہ گزیں ہوگیا جس کو انگریز نو آبادکار’فارموسا‘ کہتے تھے۔ اب یہ جزیرہ تائیوان کہلاتا ہے۔
چین اور تائیوان کا تنازع شروع سے چلا آرہا ہے۔ چین میں کمیونسٹ انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے کمیونسٹ چین کا بائیکاٹ کیا اور تائیوان کو تسلیم کرلیا۔ مغربی طاقتوں نے اقوام متحدہ میں چین کی بجائے تائیوان کو نمائندگی دلوانے میں بھی کردار ادا کیا۔