برطانیہ اور امریکہ نے روس پر اینٹی سیٹلائٹ خلائی ہتھیار چلانے کا الزام لگاتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ماسکو کے اس اقدام سے نہ صرف ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے بلکہ اس سے بین الاقوامی برادری کے لیے ہتھیاروں کی دوڑ اور کشیدگی میں اضافے جیسے خطرے پیدا ہو گئے ہیں۔
مغربی اتحادی اس سے قبل بھی کریملن پر اینٹی سیٹلائٹ ہتھیاروں کی آزمائش کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ تاہم ایسا پہلی بار ہوا ہے جب روس کو مدار میں موجود خلائی ہتھیار چلانے کے الزام کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
واشنگٹن اور لندن نے ماسکو پر اس آپریشن کو چھپانے کے لیے حیلے بہانے بنانے کا الزام بھی لگایا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کا دعویٰ ہے کہ روس نے خلائی سروے اور تحقیق کے لیے جانے والے ’کوسموز 2543‘ مشن کے ذریعے اینٹی میزائل ہتھیار خلا میں بھیجے۔
برطانیہ کے خلائی ڈائریکٹریٹ کے سربراہ ایئر وائس مارشل ہیروے سمتھ نے کہا: ’اس طرح کے اقدامات سے خلا کے پرامن استعمال کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور اس (تجربے) کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ملبے سے خلا میں موجود سیٹلائٹوں اور ان خلائی نظاموں کو خطرہ ہے جس پر ہماری دنیا انحصار کر رہی ہے۔ ہم روس پر زور دیتے ہیں کہ وہ مستقبل میں ایسے مزید تجربات کرنے سے باز رہے۔‘
’یو ایس سپیس کمانڈ‘ کے کمانڈر اور ’یو ایس سپیس فورس‘ کے چیف آف سپیس آپریشنز جنرل جان ڈبلیو ریمنڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ روس کی جانب سے جاری (خلائی ہتھیاروں کے) نظام کی تیاری اور ان کی آزمائش کا ایک اور ثبوت اور کریملن کی شائع شدہ ملڑی ڈاکٹرائن کا حصہ ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلائی اثاثوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔‘
روس پر یہ الزامات ایک ایسے وقت لگائے گئے ہیں جب ماسکو اور لندن کے درمیان تعلقات نچلی ترین سطح پر ہیں اور چند روز قبل ہی برطانوی سیاست میں روسی مداخلت کے حوالے سے ’انٹیلی جنس اینڈ سکیورٹی کمیٹی‘ (آئی ایس سی) کی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔
اس تحقیق میں کنزرویٹیو پارٹی کے تسلسل کے ساتھ منتخب ہونے والے وزائے اعظم پر انگلی اٹھائی گئی ہے جو کئی برسوں سے دیے جانے والے انتباہوں کے باوجود بریگزٹ ریفرینڈم میں کریملن کی مداخلت کی تحقیقات کرانے میں ناکام رہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے بھی رواں ہفتے دعویٰ کیا تھا کہ روسی سٹیٹ ایکٹرز نے بریگزٹ کے بعد امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے کی ایک سرکاری دستاویز کا استعمال کرتے ہوئے برطانیہ کے عام انتخابات میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے گذشتہ سال دسمبر میں اپنی خلائی فوج کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے روسی اور چینی اینٹی سیٹلائٹ ہتھیاروں کا حوالہ دیا تھا۔
امریکی انتظامیہ نے 15 جولائی کو، جب روسی خلائی میزائل لانچ کر رہے تھے، یہ اعلان کیا تھا کہ روس کے ساتھ ’سپیس سکیورٹی ایکسچینج سمٹ‘ کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ کرسٹوفر فورڈ، جو اس وقت اسلحہ کنٹرول اور انٹرنیشنل سکیورٹی کے لیے انڈر سیکرٹری کے فرائض بھی سرانجام دے رہے، کا کہنا ہےیہ واقعہ خلائی ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق روس کی منافقانہ حمایت کا پردہ چاک کرتا ہے۔ 'ماسکو کا مقصد امریکہ کی صلاحیتوں کو محدود کرنا ہے جب کہ اس کا واضح طور پر اپنے کاؤنٹر سپیس پروگرام کو روکنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ دونوں ممالک کے پاس زمین سے مار کرنے والی اینٹی سیٹلائٹ صلاحیت موجود ہے لیکن ہمیں اب پتہ چلا کہ اصل میں تو روس کے پاس تو مدار میں ہتھیار موجود ہیں۔‘
مغربی سکیورٹی عہدےداروں کا کہنا ہے کہ روسی کارروائی اس وقت سامنے آئی جب وہ سیٹلائٹز کا بڑے پیمانے پر استعمال کر رہا ہے جس کے مقاصد میں انٹیلی جنس اکٹھا کرنا، مواصلات، نیوی گیشن اور فوجی سرگرمیوں کی قبل از وقت وارننگ شامل ہیں۔
صرف چار ممالک روس، امریکہ، چین اور بھارت نے پچھلی دہائیوں میں اینٹی سیٹلائٹ صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب خلا کو ایک نئے محاذ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور متعدد ممالک سپیس بیسڈ سسٹم کے لیے کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام قائم کر رہے ہیں۔
روسی کی حالیہ خلائی سرگرمی اس کا ایک نمونہ ہے۔ چین نے امریکی جی پی ایس کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے نیوی گیشن نظام کا آخری سیٹلائٹ بھی خلا میں بھیج دیا ہے۔
فروری میں امریکی فوج نے کہا تھا کہ دو روسی سیٹلائٹ ایک منصوبے کے تحت امریکی سیٹلائٹ کے قریب پہنچ گئے تھے اور اپریل میں ماسکو نے زمین پر قائم سیٹلائٹ انٹرسیپٹر کا تجربہ کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگست 2018 میں واشنگٹن نے روسی سیٹلائٹ نظام کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے کہا تھا کہ یہ انتہائی غیر معمولی طرز عمل ایک ہتھیار ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب ماسکو نے اس الزام کو بے بنیاد اور بہتان قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔فوجی مقاصد کے لحاظ سے خلا پہلے ہی نئے محاذ کی صورت اختیار کرچکا ہے اور متعدد ممالک اپنی مسلح افواج میں مخصوص سپیس کمانڈ کا اضافہ کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے خلائی نظام کی حفاظت کے لیے دفاعی اور جارحانہ دونوں پہلوؤں سے نمٹ سکیں۔
یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس مقصد کے لیے سویلین خلائی منصوبوں کو استعمال کیا جارہا ہے جیسا کہ زمانہ قدیم میں یونانی سٹریٹجک تسلط کی کوشش کے لیے ’ٹروجن ہارس‘ استعمال کرتے تھے۔
روس کی خلائی تنظیم کے سربراہ نے امریکہ کی جانب سے خلانوردوں کو چاند پر بھیجنے کو ’ایک بہت بڑا سیاسی منصوبہ‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کی ہے اور خبردار کیا کہ وہ چین کے ساتھ مل کر چاند پر ایک آپریشن بیس قائم کرنے کے لیے بات کر رہا ہے۔
گذشتہ برس ناسا نے اپنے آرٹیمیس پروگرام کا اعلان کیا تھا جس کے تحت وہ 2024 تک چاند پر انسانوں کو اتارے گا۔ روسی خلائی ادارے کے سربراہ دیمتری روگوزین نے کہا کہ ماسکو واشنگٹن کی جانب سے بنائی جانے والی بین الاقوامی شراکت داری پر اتفاق رائے نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا ’امریکہ کے لیے یہ اب بھی ایک بہت بڑا سیاسی منصوبہ ہے۔ چاند پر پہنچنے کے منصوبے کے ساتھ ہم اپنے امریکی شراکت داروں کو اس اشتراک اور باہمی تعاون کے اصولوں سے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھ رہے ہیں جو بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے قیام کے وقت تشکیل پائے تھے۔ وہ اپنے پروگرام کو بین الاقوامی طور پر نہیں بلکہ نیٹو جیسا ہی ایک پروگرام سمجھ رہے ہیں۔‘
© The Independent