پاکستان کی پارلیمان میں آج مشترکہ اجلاس ہو رہا ہے جس کا آغاز تاخیر سے اور اپوزیشن اراکین تو دکھائی دیے وزیراعظم عمران خان ایوان میں تشریف نہ لائے۔ درحقیقت وہ اپنے چیمبر میں بیٹھے تقاریر سن رہے تھے جسے اپوزیشن اراکین نے غیرسنجیدگی قرار دیا۔
تاہم بعد میں وزیراعظم عمران خان ایوان میں تشریف لے آئے اور وہیں بیٹھ کر تقاریر سنتے رہے۔
وزیراعظم عمران خان دو بج کر 46 منٹ پر جب ایوان میں آئے تو اس وقت اپوزیشن اراکین کی تقاریر ختم ہو چکی تھیں جس پر پاس بیٹھے صحافی نے تبصرہ کیا کہ وزیراعظم بلز کے پیش ہونے کے وقت ایوان میں تشریف لائے ہیں۔
بل کی بات کریں تو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے پارلیمان کے آج کے اجلاس میں حکومت نے جو جو بل پھنسے تھے سب کو ایک ہی مرتبہ منظور کرنے کی اچھی پالیسی اپنائی۔
اس سے نہ تو با بار اتحادیوں کو خوش کرنے کی ضرورت پڑے گی نہ با بار حزب اختلاف کے ساتھ سینگ لڑائے جائیں گے۔ اب حکومت ایک طویل عرصے تک قانون سازی سے فارغ ہوگئی ہے۔
بظاہر حکومت نے آج بلوں کا بدھ بازار ایوان میں سجایا تھا۔
یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ آج کے اجلاس میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین، اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق، سٹیٹ بینک خودمختاری بل، خواتین و بچوں سے زنا بالجبر کیس میں جرم کی فوری سزا کا بل اور کلبھوشن یادیو کیس سے متعلق عالمی عدالت انصاف نظر ثانی و غور فکر بل 2021 ، نیشنل کالج آف آرٹس انسٹیٹیوٹ بل 2021 اور مسلم عائلی قوانین بل 2021 کثرت رائے سے منظور کرائے گئے ہیں۔
حکومتی وزرا نے جب بلز پیش کیے تو اپوزیشن نے ’شیم شیم‘ کے نعرے لگائے اور کہا کہ ’ووٹ کو عزت دو‘۔
اوور سیز پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ کے حق کے لیے ووٹنگ کے بل میں رائے شماری کے دوران ایوان میں عملے کے اراکین جب گنتی کرنے لگے تو رانا ثنااللہ مرتضیٰ جاوید عباسی بھی ساتھ آئے تاکہ عملہ حکومت کے حق کے لیے غلط ووٹنگ نہ کرے۔
وہ خود بھی عملے کے ہمراہ ووٹنگ کے دوران اراکین کو گنتے رہے تاکہ صحیح تعداد کا علم ہو سکے۔ ایوان میں ایک، دو، تین، چار کی تکرار ہوتی رہی۔
’کلبھوشن کا جو یار ہے غدار غدار ہے‘، ’سپیکر کو آزاد کرو‘، ’مک گیا تیرا شو نیازی گو نیازی گو نیازی‘، لاٹھی کی گولی کی سرکار‘، ’ووٹ چورو جان چھوڑو‘۔۔۔۔ یہ وہ نعرے ہیں جو اجلاس کے دوران گنتی کے موقع پر ایوان میں گونجتے رہے۔
اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے آنے پر اپوزیشن بینچز نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا۔ پھر شہباز شریف آئے لیکن اپنی نشست پر بیٹھنے سے قبل ان نشستوں کی جانب بڑھے جہاں پیپلز پارٹی کے اراکین بیٹھے تھے۔
شہباز شریف اور خواجہ آصف نے وہاں جا کر آصف زرداری سے کہنی ملا کر مصافحہ کیا۔
الیکشن ایکٹ کو اجلاس کے آغاز میں اپوزیشن کے شور کی وجہ سے موخر کر دیا گیا تھا۔
بعد میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے تقریر کا آغاز کیا اور کہا کہ اجلاس موخر کیا جائے اور پہلے مشاورت کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کالے قوانین سے بلز پاس کروانا چاہتی ہے اگر یہ کالا قانون پاس ہوا تو پاکستان کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے جس کی ذمہ داری آپ (سپیکر قومی اسمبلی) پر عائد ہو گی۔
شہباز شریف نے EVM کو ‘evil vicious machine’ قرار دیا۔
اس موقع پر بحرین کے سپیکر اسمبلی اور اراکین بھی مشترکہ اجلاس میں موجود تھے۔ جب سپیکر نے اس جانب توجہ دلائی تو شہباز شریف نے تقریر روک کر انہیں عربی میں خوش آمدید کہا۔
شہباز شریف نے کہا ’ہم بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ حکومت کی نیت صاف ہو۔‘
’جب سے یہ حکومت آئی ہے ان تین الفاظ کے معنی بدل گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بربادی کا نام تبدیلی، انتقام کا نام احتساب اور دھاندلی کا نام الیکٹرونک ووٹنگ مشین ہو گیا ہے۔‘
شہباز شریف کی تقریر کے اختتام پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جوابی تقریر کی۔
شوکت ترین بھی اجلاس میں تاخیر سے پہنچے اور کچھ لمحات تک تو پہلی رو میں اپنی نشست ڈھونڈتے رہے کہ کہاں بیٹھیں۔
واضح رہے کہ آج کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے پانچ ارکان شریک نہیں ہوئے۔ اختر مینگل ملک سے باہر ہیں، نوید قمر کو ڈینگی بخار ہے جبکہ یوسف تالپور بھی بیمار ہیں۔ ان کے علاوہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سکندر میندرو بھی شدید بیماری کی وجہ سے شریک نہ ہوئے۔
حکومتی و اتحادی بینچز میں پیچھے بیٹھے اراکین اجلاس پہ دھیان دینے کے بجائے آپس میں خوش گپیوں میں مصروف نظر آئے۔
صادق سنجرانی کے ساتھ دلاور خان گروپ کے اراکین داخل ہوئے جس پر صحافیوں کا تبصرہ تھا کہ دلاور خان گروپ کے ان چھ لوگوں پر نظر رکھنی ہے، ’کیونکہ یہ چھ ووٹ جس طرف جائیں گے اس سے نتائج پر فرق پڑے گا کیونکہ ووٹنگ سادہ اکثریت سے ہو گی۔ خفیہ یا بیلٹ ووٹنگ نہیں ہو گی۔‘
دلاور گروپ ان چھ سینیٹرز پر مشتمل ہے جو چیئرمین سینیٹ کے قریب ترین ہیں۔ ان چھ سینیٹرز نے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دے کر اپوزیشن لیڈر بنوا دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دلاور خان گروپ کا مسلم لیگ ن سے تعلق ہے جو آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے تھے۔ بلوچستان عوامی پارٹی اور فاٹا کے ارکان شامل ہیں۔ حکومت کے پاس سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کل نشستیں 221 جبکہ اپوزیشن کے پاس کل ملا کر 213 نشستیں ہیں۔ جبکہ چھ نشتیں دلاور خان گروپ کی ہیں۔
اجلاس کے دوران شلوار قمیص اور واسکٹ پہنے ایک شخص چارٹ لے کر حکومتی و اتحادی بینچز کے درمیان گھوم رہے تھے۔
اس چارٹ پر اراکین کے بیٹھنے کی ترتیب بنی ہوئی تھی۔ وہ دیکھ کر سبز اور گلابی رنگ سے مارک کر رہے تھے کہ کون حاضر ہے اور کون غیر حاضر ہے۔
گیلری سے نظر آنے والے سفید چارٹ میں سبز خانے زیادہ تھے جبکہ گلابی خانے کم تھے۔
شاہ محمود قریشی کی تقریر ختم کرنے کے بعد سپیکر نے مائیک بابر اعوان کو دیا تاکہ وہ بل پیش کر سکیں جس پر اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کر دیا جبکہ پیپلز پارٹی کے اراکین سپیکر ڈیسک کے قریب چلے گئے اور با آواز بلند بولنا شروع کر دیا اور کہا کہ پہلے بلاول تقریر کریں گے۔
سپیکر نے اس شور شرابے پر کہا کہ آپ چپ کر جائیں ورنہ آپ کو معطل کر دوں گا یہ کہہ کر پارلیمنٹ میں متعین نیلے یونیفارم میں ملبوس سکیورٹی جسے سارجنٹ ایٹ آرمز کہا جاتا ہے انہیں بلایا اور قادر مندوخیل کو ایوان سے باہر جانے کو کہا۔
قادر مندوخیل ایوان سے باہر چلے گئے جبکہ سارجنٹس نے حفاظت کے پیش نظر سپیکر ڈیسک کو حصار میں لے لیا۔
یہی نہیں بلکہ عامر لیاقت حسین نے بھی اگلے بینچز پر جانے کی کوشش کی مگر آغا رفیع اللہ کے ساتھ ان کی تکرار ہوگئی، جس کے بعد لڑائی شدت اختیار کر گئی۔
حکومتی اراکین عامر لیاقت کو پچھلے بینچز پر لے آئے جبکہ تحریک انصاف کراچی کے اراکین آغا رفیع اللہ کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے مگر آغا رفیع اللہ ’لیاقت لیاقت‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
سپیکر نے اعلان کیا کہ دو منٹ کے اندر حکومت اور اتحادی ٹریژری بینچز پر آ جائیں اور اپوزیشن اپنے بینچز میں چلے جائیں ورنہ میں وارنٹ جاری کر دوں گا۔