لاہور ہائی کورٹ نے صوبہ پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور میں سموگ کی وجہ سے تمام سرکاری و نجی دفاتر میں ملازمین کی حاضری 50 فیصد تک محدود کرنے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے جمعرات کو ہارون فاروق نامی شہری کی متفرق درخواست پر کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران پانی اور ماحولیات پر جوڈیشل کمیشن نے چار سو سے زائد ایئر کوالٹی انڈیکس والے شہر کے متاثرہ علاقوں میں سکول بند کر کے آن لائن کلاسوں کی تجویز دی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔
کمیشن کی دیگر تجاویز میں 500 ایئر کوالٹی انڈیکس والے علاقوں میں تمام صنعتی یونٹس بند کرنے، دھواں کنٹرول کرنے والے آلات نہ لگانے والی فیکٹریوں کو 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانے اور پی ڈی ایم اے کی فصلوں کی باقیات کو جلانے کے خلاف نگرانی کی تجاویز بھی دیں۔
کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ فصلوں کی باقیات جلانے کے علاقوں میں پٹواریوں اور زرعی افسران کو مانیٹرنگ کی ذمہ داری دی جائے اور حلقہ پٹواری اور زرعی افسر اپنے علاقوں میں فصلوں کی باقیات جلانے کی پابندی کے خلاف ورزی کے ذمہ دار ہوں گے۔
محکمہ ماحولیات نے عدالت میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے اقدامات سے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ پنجاب میں چار ہزار 761 بھٹوں کی انسپکشن اور 35 ملین روپے کے جرمانے کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق سموگ کے تدارک کے اقدامات نہ کرنے والے بھٹوں کے خلاف 797 مقدمات درج ہوئے، 22 افراد گرفتار اور 274 بھٹے سربمہر اور دھوئیں کا سبب بننے والی گاڑیوں پر 4.6 ملین روپے جرمانے کیے گئے۔
اسی طرح دھوئیں سے بچاؤ کے آلات نصب نہ کرنے پر 245 جبکہ فضائی آلودگی کا سبب بننے والے77 صنعتی یونٹس کو سربمہر کیا گیا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والی فیکٹریوں کے خلاف 197 مقدمات، 93 افراد گرفتار، فصلوں کی باقیات جلانے پر 864 مقدمات درج، چار لاکھ 94 ہزار روپے جرمانے کیے گئے۔
سماعت کے دوران ڈی جی محکمہ ماحولیات علی اعجاز نے بتایا کہ فصولوں کی باقیات جلانے پر پابندی کے ساتھ ساتھ ٹریفک جام نہ ہونے کی حکمت عملی ٹریفک پولیس سے مل کر بنائی جا رہی ہے۔
ہائی کورٹ نے سموگ کے تدارک کے لیے ٹریفک پلان طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ٹریفک کی ایمرجنسی کال لائن قائم کی جائے جہاں کوئی بھی شہری ٹریفک جام کی شکایت کر سکے اور فوری وہاں سے ٹریفک کو کنٹرول کیا جا سکے۔
عدالت نے حکم دیا کہ ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے سرکاری و نجی دفاتر میں حاضری 50 فیصد تک محدود کی جائے۔
لاہور شہر کو ان دنوں سموگ نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ایک طرف جہاں پنجاب حکومت شہر میں سموگ پر قابو پانے کے اقدامات کے طور پر شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کر رہی ہے وہیں صوبائی وزیر ماحولیات محمد رضوان شہر کو آلودہ ترین شہروں میں سے ایک تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
انہوں نے پہلے ایک بیان میں کہا کہ شہر میں سموگ ہی نہیں پھر بتایا کہ ماحولیاتی آلودگی میں لاہور کی پہلے یا دوسرے نمبر پر درجہ بندی کا دعویٰ غلط ہے کیونکہ ان کے خیال میں نجی ایئر کوالٹی انڈیکس جانچنے کے آلات سے جاری اعداد وشمار غلط ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نجی ایئر کوالٹی انڈیکس کے آلات نصب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو خط لکھ دیا ہے۔
خط میں غلط ڈیٹا دے کر لاہور اور پاکستان کا نام بدنام کرنے کی شکایت کرتے ہوئے کہا گیا کہ کوئی بھی نجی ادارہ محکمہ ماحولیات کی منظوری کے بغیر اعدادوشمار جاری نہیں کرے گا اور منظوری کے بغیر ایئر کوالٹی انڈیکس جاری کرنے والے اداروں کو بند کرنے کے احکامات دیے جائیں۔
کیا واقعی ایئر کوالٹی انڈیکس کے اعداد وشمار درست نہیں؟
ماہر ماحولیات رافع عالم کہتے ہیں کہ ایئر کوالٹی جانچنے کے لیے دنیا بھر میں نو چیزوں مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ، مونو آکسائیڈ، مٹی اور دھویں میں کاربن وغیرہ کو جانچا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایئر کوالٹی جانچنے کے لیے حکومت کے پاس صرف دو آلات ہیں جن سے دن اور رات کے اوقات میں اعدادوشمار لے کر روایتی ریکارڈ بنایا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’نجی طور پر جو آلات لگے ہیں وہ دن کے اوقات میں، جب زیادہ سماگ ہوتی ہے، کے اعداد وشمار زیادہ شامل کرتے ہیں اس لیے حکومت کو لگتا ہے کہ شاید سماگ ہے نہیں۔‘
ان کے خیال میں ہر وقت سموگ نہیں ہوتی بلکہ کچھ وقت کے لیے سموگ کی بجائے فضائی آلودگی چھا جاتی ہے تو یہ کہنا کہ سموگ نہیں ’دھوکہ دینے والی بات ہے کیونکہ سموگ اور آلودگی دونوں کا نقصان ایک جیسا ہے۔‘
ترجمان محکمہ ماحولیات ساجد بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سموگ یا فضائی آلودگی ضرور بالکل موجود ہے اور اس پر قابو پانے کے اقدامات بھی کر رہے ہیں۔
’مگر یہ کہنا کہ دنیا میں لاہور پہلے یا دوسرے نمبر پر آلودہ ترین شہر ہے غلط ہے کیونکہ جو نجی طور پر ایئر کوالٹی جانچنے کے آلات سے انڈیکس جاری ہوتے ہیں وہ مصدقہ نہیں۔‘
انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ شہر میں ہر جگہ ایک ہی وقت پر ماحول ایک جیسا نہیں ہوتا کہیں فضائی آلودگی زیادہ ہوتی ہے کہیں کم لیکن اگر صرف ان علاقوں سے ایئر کوالٹی انڈیکس لیے جائیں جہاں آلودگی زیادہ ہوتی ہے، جو چار یا پانچ سو تک ہوتی ہے، تو ایسے ہی لگے گا کہ پورے شہر میں آلودگی یا سموگ انتہا کو چھو رہی ہے۔