افغانستان میں طالبان حکام نے نئی ’مذہبی گائیڈ لائنز‘ جاری کرتے ہوئے ملک کے ٹی وی چیلز کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ ایسے ڈرامے دکھانا بند کر دیں جن میں اداکارائیں ہوتی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغان میڈیا کو ہدایات محکمہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے جاری کیں۔
طالبان حکام نے خواتین صحافیوں پر بھی زور دیا کہ وہ روپورٹنگ کے وقت حجاب پہنا کریں۔
وزارت نے چینلز کو یہ ہدایت بھی جاری کی کہ ایسی فلمیں یا پروگرام نشر نہ کیے جائیں جن میں پیغمبر اسلام یا دیگر قابل احترام شخصیات کو دکھایا گیا ہو۔
اس کے ساتھ اسلامی اور افغان اقدار کے خلاف فلموں اور پروگراموں پر پابندی نافذ کرنے کا بھی کہا گیا۔
وزرات کے ترجمان حاکف مہاجر نے کہا: ’یہ اصول نہیں بلکہ مذہبی گائیڈلائنز ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان ہدایات پر اتوار کو سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر کافی بحث ہوئی۔
طالبان کا اصرار تھا کہ وہ اس بار زیادہ اعتدال سے حکومت کریں گے، تاہم انہوں نے اب تک اس کے برعکس قواعد متعارف کروائے ہیں، جیسے یونیورسٹیوں میں خواتین کے لباس پر پابندیاں وغیرہ۔ اس کے علاوہ کئی خواتین صحافیوں کے ساتھ جارحانہ رویہ بھی رکھا گیا۔
افغانستان میں گذشتہ 20 سالوں میں امریکہ کی موجودگی کے دوران افغان میڈیا نے تیزی سے ترقی کی تھی۔
2001 میں طالبان حکومت کے جانے کے بعد مغربی اداروں اور نجی سرمایہ کاری کی مدد سے درجنوں ٹی وی چینل اور ریڈیو سٹیشن قائم ہوئے تھے، جن پر موسیقی کے مقابلے، ڈرامے اور بھارتی اور ترک شو دیکھائے جاتے رہے۔
اس سے قبل طالبان کے دور میں افغان میڈیا نہ ہونے کے برابر تھا، کیونکہ ٹی وی اور فلموں پر پابندی تھی۔ ٹی وی دیکھتے پکڑے جانے والے کو سزا دی جاتی تھی، اگر کسی کے پاس سے ویڈیو پلیئر برآمد ہوا تو کوڑے بھی پڑ سکتے تھے۔
صرف وائس آف شریع نامی ریڈیو سٹیشن کو نشریات کی اجازت تھی۔