فضائی آلودگی کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر محکمہ تعلیم نے تعلیمی اداروں کو ہفتے کے تین دن رکھنے کا نوٹفیکیشن جاری کر دیا ہے جبکہ پولیس بھی ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنرز کے ساتھ مل کر دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، فصلیں جلانے والے افراد اور فضا کو آلودہ کرنے والے صنعتی یونٹس کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سموگ کے حوالے سے شیراز ذکا، آفتاب ورک اور ابو ذرسلمان خان نیازی کی درخواستوں پر سماعت کی، جس میں سموگ کے لیے اقدامات نہ کرنے اور مکمل لاک ڈاؤن کی استدعا کی گئی تھی۔
ان درخواستوں کی سماعت کے موقع پر عدالت نے لاہور کے میئر کرنل ریٹائرڈ مبشر جاوید کو بھی طلب کر رکھا تھا، جنہوں نے عدالت میں پنجاب حکومت کے حوالے سے شکایت کی کہ انہیں آٹھ فیصد سے زیادہ بجٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں اور نہ ہی مکمل اختیارات دیے جا رہے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس شاہد کریم نے مئیر لاہور کو فوکل پرسن مقرر کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ’لاہور کو ایسے ہی صاف کرنا ہے، جیسے ہمارا گھر ہوتا ہے۔‘
دوسری جانب کمشنر لاہور نے جہاں اینٹی سموگ سکواڈ بنایا تھا وہیں اب ان کا کہنا ہے کہ لاہور کے مختلف علاقوں میں جہاں تعمیراتی کام جاری ہیں وہاں پانی کا مسلسل چھڑکاؤ کر کے گرد کو بٹھایا جائے گا۔
اس کے علاوہ ایک ماہ کے لیے یورو 2 کی بجائے یورو 5 کی سپلائی کی جائے گی کیونکہ یورو 5 سے سلفر کا اخراج کم ہو گا جو فضا کو آلودہ ہونے سے بچانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
جبکہ محکمہ تعلیم نے بھی سموگ کے خطرے کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کو ہفتے کے تین دن یعنی ہفتہ اتوار اور پیر کو بند رکھنے کا نوٹفیکیشن جاری کر دیا ہے جس کا اطلاق 27 نومبر سے ہوگا اور 15 جنوری تک اس پر عمل درآمد جاری رہے گا۔
ان سب حکومتی اقدامات کے باوجود صوبائی وزیر ماحولیات باؤ محمد رضوان اپنے اس بیان پر قائم ہیں جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’لاہور شہر میں سموگ نہیں گرد ہے۔‘
واضح رہے کہ کچھ روز قبل باؤ محمد رضوان نے کہا تھا کہ گذشتہ دو برس کے دوران ’لاہور میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی سموگ نہیں ہوئی۔‘
ان کے خیال میں بین القوامی ائیر کوالٹی انڈکس کی جانب سے جاری کردہ ہوائی آلودگی کا انڈکس بھی درست نہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے تو وفاقی تحقیقاتی ادرے (ایف آئی اے) کو بھی ایک خط لکھ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ بین القوامی اداروں کو پاکستان کی ہوائی آلودگی کے حوالے سے اعدادوشمار جاری کرنے کی اجازت نہیں ہے اس لیے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہوائی آلودگی کے حوالے سے ’بین القوامی ڈیٹا ان کے ڈپارٹمنٹ برائے حفاطت ماحولیات کے اعدادوشمار سے میل نہیں کھاتا۔‘
صوبائی وزیر ایسے بیانات کیوں دے رہے ہیں؟
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی وزیر برائے ماحولیات باؤ محمد رضوان سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی کہ آخر وہ ایسے بیانات کیوں دے رہے ہیں۔
جس پر محمد رضوان نے بتایا کہ ’2017 میں پہلی بار پنجاب میں سموگ ہوئی۔ اس سے پہلے بھی صبح کے وقت دھند (فوگ) کی ہلکی پھلکی موجودگی ہوتی تھی جو کہ دراصل فوگ نہیں ہوتی لیکن چونکہ ہوا میں آج کل نمی ہوتی ہے اس کی وجہ سے ہمیں وہ فوگ لگتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس حوالے سے اس حد تک غلط فہمی پھیلا دی گئی ہے کہ کسی روز اگر لاہور میں اصل میں فوگ ہوئی تو سب نے کہنا ہے سموگ ہو گئی ہے۔‘
محمد رضوان کے بقول ائیر کوالٹی انڈکس پی ایم 2.5 چوبیس گھنٹے سے پہلے حتمی نہیں ہو سکتا جبکہ ’ہمارے ہاں اسے روزانہ صبح کے وقت طے کر لیا جاتا ہے۔ اس وقت ائیر کوالٹی انڈکس جو اوپر جا رہا ہے اس میں گرد کے ذرات ہیں، آلودگی اتنی زیادہ نہیں ہے۔‘
’اس وقت لاہور میں تین ائیر کوالٹی مانیٹرز لگے ہیں جن میں سے ایک موبائل وین ہے جو ٹھیک طریقے سے کام کر رہی ہے وہ پنجاب اسمبلی کے سامنے ہے، ایک ٹاؤن ہال اور ایک ماڈل ٹاؤن میں لگا ہے۔ دیگر چھ مانیٹرز مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے کام ہی نہیں کر رہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’میں نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے کہا ہے اور وہ جلد ہمارے لیے فنڈز جاری کر رہے ہیں جس سے ہم باقی کے چھ مانیٹرز کو ٹھیک کروا کر بہت جلد ان سے بھی ریڈنگ لینا شروع کر دیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ محکمے کا اپنا ائیر کوالٹی انڈکس محکمے کی ویب سائٹ پر موجود ہے میڈیا اسے رپورٹ کرے۔
یہاں ہم نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ وزیر ماحولیات جو کہہ رہے ہیں آیا ماہرین کی نظر میں وہ کتنا درست ہے۔
ماہر ماحولیات رافع عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وزیر ماحولیات درست کہہ رہے ہیں۔ سموگ فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے، جو دھویں اور دھند سے مل کر بنتی ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’سموگ بننے کے لیے آلودگی (دھواں) اور خاص موسمیاتی حالات (ایک الٹا بادل جو دھند کا سبب بنتا ہے) کی ضرورت ہے اس لیے وزیر صاحب درست کہتے ہیں کہ لاہور کی فضائی آلودگی سموگ نہیں ہے۔‘
’تکنیکی طور پر یہ سموگ نہیں ہے، لیکن یہ فضائی آلودگی کی انتہائی خطرناک سطح ہے۔ بات یہ ہے کہ لاہوری اب خراب ہوا کی اقساط کو ’سموگ سیزن‘ کہتے ہیں۔‘
تاہم ماہر ماحولیات نے یہ بھی کہا کہ ’وزیر صاحب کو تکنیکی لوازمات میں نہیں پڑنا چاہیے، ہوا کا معیار زہریلا ہے، اس سے قطع نظر کہ یہ سموگ ہے یا نہیں۔‘
سموگ دراصل ہے کیا؟
بین الاقوامی ادارے نیشنل جیوگرافی کے مطابق سموگ فضائی آلودگی ہے جو مرئیت visibility کو کم کرتی ہے۔
’سموگ‘ کی اصطلاح پہلی بار 1900 کی دہائی کے اوائل میں دھوئیں اور دھند کے مرکب کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔
دھواں عموماً جلتے ہوئے کوئلے سے نکلتا تھا۔ اس زمانے (1900 کی دہائی) میں صنعتی علاقوں میں سموگ عام تھی اور آج بھی شہروں میں یہ دیکھی جاسکتی ہے۔
نیشنل جیوگرافی کے مطابق ’آج، ہم جو زیادہ تر سموگ دیکھتے ہیں وہ فوٹو کیمیکل سموگ ہے۔ فوٹو کیمیکل سموگ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سورج کی روشنی نائٹروجن آکسائیڈز اور فضا میں کم از کم ایک غیر مستحکم نامیاتی مرکب (volatile organic compound ((VOC) کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتی ہے۔
’نائٹروجن آکسائیڈ کار کے اخراج، کوئلے کے پاور پلانٹس اور فیکٹری کے اخراج سے آتے ہیں۔ VOCs پٹرول، پینٹ، اور بہت سے صفائی سالوینٹس سے جاری ہوتے ہیں۔ جب سورج کی روشنی ان کیمیکلز سے ٹکراتی ہے، تو وہ ہوا سے چلنے والے ذرات اور زمینی سطح پر اوزون یا سموگ بناتے ہیں۔‘
پٹرول کو یورو 2 سے 5 پر لانے سے فضائی آلودگی کم ہوگی، اس سے قیمت میں کیا فرق پڑے گا؟
پاکستان پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اطلاعات انجینئیر خواجہ عاطف نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یورو 5 پر آنے سے قیمت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ہم ہر چیز سے آنکھ چرانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
’یقیناً گاڑیوں کا دھواں فضا آلودہ کرنے میں ایک عنصر ہے لیکن متعلقہ ادارے مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچتے۔ موٹر وے یا ہائی وے کے دونوں اطراف کھیتوں میں آگ لگی دکھائی دے گی، وہ دھواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔‘
خواجہ عاطف کا کہنا ہے کہ پٹرول تقریباً درآمد کیا جاتا ہے صرف 26 سے 28 فیصد ہماری اپنی ریفائنریز میں تیار کیا جاتا ہے۔
’جب تک ہم اپنی ریفائنریز کی اپ گریڈیشن نہیں کرتے تب تک یہ سپلائی نہیں ہوسکتی۔ دوسری بات یہ کہ جتنی جان لاہور کے شہریوں کی قیمتی ہے اتنی ہی باقی شہروں کے لوگوں کی بھی ہے اس لیے ایک قومی پالیسی مرتب ہونی چاہیے نہ کہ صرف ایک شہر کے لیے۔‘
ماہر ماحولیات رافع عالم نے بتایا کہ ویسے تو لاہور شہر کے لیے یورو 4 استعمال کرنے کی ہدایات ہیں حالانکہ بھارت جیسے ملک تو یورو 6 استعمال کر رہے ہیں۔