دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے شمار ہونے والے پاکستان کے شہر لاہور میں بدھ کے روز ایک اینٹی سموگ اسکواڈ کی وین دھواں اگلنے والی فیکٹریوں کا سراغ لگانے کے کام پر مامورہے۔
اس سفید گاڑی کے اندر ٹیم کے چھ ارکان کے ساتھ ان کی حفاظت کرنے والا ایک مسلح محافظ بھی موجود ہے۔ اس وین میں ٹیم کے ممبران کے پاس ان مقامات کی فہرست ہے جن کا وہ اس دن معائنہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ٹیم کے افراد آسمان کو زہریلے دھوئیں کے لیے بغور دیکھتے ہیں جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ آیا آس پاس کوئی فیکٹری ماحولیاتی قوانین کو توڑ رہی ہے یا نہیں۔
دسمبر تک جاری رہنے والے اس نئے آپریشن کے انچارج علی اعجاز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہمیں کسی لسٹ کی بھی ضرورت نہیں ہے، ہم صرف دھویں کا پیچھا کرتے ہوئے اس کے ذریعے تک پہنچ سکتے ہیں۔‘
اس آپریشن کے کُل پانچ سکواڈ ہیں جو بھارت کے نزدیک واقع پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سب سے بڑے شہر میں سالانہ آلودگی میں اضافے کی روک تھام کے کام پر مامور ہیں۔ اس سالانہ اضافے کے باعث ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ افراد سانس لینے میں دشواری اور دیگر بیماریوں سے متاثر ہوتے ہیں۔
علی اعجاز کا کہنا ہے کہ وہ وسیع و عریض شہر میں 300 صنعتی کارخانوں کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جنہیں فضائی آلودگی کے بدترین اخراج کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
قانونی مسائل اور ’سمجھوتہ‘
ایک حالیہ مشن پر پانچ ٹیموں میں سے ایک ٹیم ایسے محلے کی کا رخ کرتی ہے جہاں شہر کے گنجان آباد علاقے میں موجود متعدد فیکٹریز اور ملز سے دھواں اٹھ رہا ہے۔
ٹیم لیڈر ساجد علی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ بات واضح ہے کہ یہ فیکٹریاں ہلکے معیار کا فیول استعمال کررہی ہیں۔ یہ گیسز ان افراد کے لیے نا قابل برداشت ہیں جنہیں سانس کے مسائل ہیں۔‘
ٹیم جیسے ہی پہلی فیکٹری میں داخل ہوتی ہے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرنس تھوڑی دیر پہلے ہی بند کیا گیا ہے۔
سکواڈ کے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ فیکٹری میں ’سکربر‘ ہی موجود نہیں جو کہ کارخانے کا فضلہ فضائی اخراج سے پہلے الگ کرتا ہے۔
ٹیم جلد ہی فیکٹری کو بند کر دیتی ہے اور ملازمین کو مسلح افراد کی موجودگی میں ہی باہر جانے دیا جاتا ہے۔
اس بار تو ملازمین خاموشی سے چلے جاتے ہیں مگر ماحولیاتی افسر اعجاز کے مطابق، ان کے سٹاف کو ’فائرنگ‘ کے واقعات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹیم کے پاس قانونی اختیار موجود ہونے کے باوجود دوسری طرف سے کوئی وکیل دھمکی دے دیتا ہے اور سٹاف کو مجبوراً فیکٹری کے بجائے صرف اس کی مشینری کو سیل کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹیم کے ایک فرد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کو سیاسی پریشر کے باعث ’سمجھوتہ‘ کرنا پڑتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق، یہ فیکٹریاں کچھ دنوں سے زیادہ بند نہیں کی جاسکتیں کیونکہ کم دہاڑی والے ملازمین کو روز تنخواہ چاہیے ہوتی ہے۔ مگر یہ مسئلہ کوئی معمولی نوعیت کا نہیں ہے۔
ماحولیاتی اکیٹوسٹ اور وکیل رافع عالم کا کہنا ہے: ’ہزاروں کی تعداد میں انڈسٹریل سائٹس اخراج کررہی ہیں جو کہ صرف لاہور میں چھ یا بارہ سکواڈز کی مدد سے قابو میں نہیں لائی جاسکتیں۔‘
رافع عالم کے مطابق: اگر ساری ایسی فیکٹریاں بند کردی جائیں اور ٹریفک روک دیا جائے تب بھی ’سموگ میں کمی لائی جاسکتی ہے اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔‘
انہوں نے کہا، ’ہمیں اس کا سامنا لمبے عرصے تک کرنا ہوگا۔‘
فضائی آلودگی ایک ’آفت‘
پاکستان اور بھارت دونوں میں ہوا کا معیار حالیہ سالوں میں تنزلی کا شکار ہوا ہے۔ موسم سرما میں فضائی آلودگی کا باعث ہلکی کوالٹی کے ڈیزل کا دھواں، فصلوں کا جلایا جانا اور ٹھنڈا ٹمپریچر ہیں۔
عالمی ائیر انڈیکس پر لاہورعمومی طور پر دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہری مراکز میں سے ایک کے طور پر سرفہرست رہتا ہے۔
لیکن حکام اکثر اوقات سست روی سے اس مسئلے پر توجہ دیتے ہیں یا پھر روایتی حریف بھارت پر اس کا ملبہ گرا دیتے ہیں۔
اس سال آلودہ فضا نے وقت سے پہلے ہی لاہور کا رخ کر لیا ہے جس کے باعث دنوں تک شہر گرد آلودہ رہتا ہے۔ پچھلے ہفتے، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اس معاملے کو ایک ’آفت‘ قرار دیا تھا۔