’ملتان میں یہ لنگی بنائی جاتی ہے لیکن اس کا استعمال ملتان میں اتنا عام نہیں ہے۔ ملتان سے اسے وزیرستان سپلائی کیا جاتا ہے، جسے بزرگ اور ملکان (بطور پگڑی) زیادہ استعمال کرتے ہیں۔‘
یہ کہنا تھا شمالی وزیرستان کے میر علی بازار میں کپڑوں کے کاروبار سے وابستہ محسن اللہ کا، جو وزیرستان میں لنگی فروخت کرتے ہیں۔
قبائلی اضلاع میں ملکان قبیلے کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔ سرکاری طور پر جب یہ علاقہ خیبر پختونخوا میں ضم نہیں ہوا تھا، تو قبیلے کے سرکردہ لوگوں میں سے منتخب شخص کو ملک کا رتبہ دیا جاتا تھا.
محسن نے بتایا کہ بزرگوں اور ملکان کے علاوہ عام لوگ بھی اسے استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے لیے کپڑا ملتان سے سپلائی کیا جاتا ہے، وزیرستان میں یہ نہیں بنایا جاتا۔
بقول محسن: ’اس کا کپڑا پانچ سے چھ میٹر تک ہوتا ہے اور یہ ریشم سے بنا ہوتا ہے جب کہ کوالٹی کے لحاظ سے اس میں تقریباً چار قسمیں ہیں جو تین ہزار سے لے کر پانچ ہزار روپے تک ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ لنگی کی طرز کے ایک اور کپڑے کو دستار کہتے ہیں اور اسے بھارت سے برآمد کیا جاتا ہے۔
محسن نے بتایا کہ ’لنگی اور دستار میں صرف اتنا فرق ہے کہ لنگی کے کپڑے پر ڈیزائن بنا ہوا ہوتا ہے جب کہ دستار کا کپڑا سادہ ہوتا ہے اور اس پر کوئی ڈیزائن نہیں ہوتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی پگڑی کا استعمال ہوتا ہے لیکن وہ لنگی سے مختلف ہوتا ہے۔ وزیرستان سمیت پورے پاکستان میں پگڑی کو عزت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس حوالے سے ایک مشہور کہاوت بھی ہے کہ ’کسی کی پگڑی نہ اچھالیں‘ یعنی کسی کی عزت سے نہ کھیلا جائے۔
ماضی میں کئی مواقع پر لنگی بطور عزت کسی خاص مہمان کی آمد پر پہنائی گئی۔ صحافی رسول داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لنگی کا استعمال وزیرستان میں بہت زیادہ عام تھا اور بزرگ افراد اسے استعمال کرتے تھے لیکن نوجوانوں میں اب یہ اتنی مقبول نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا: ’نوجوانوں میں لنگی کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے، اب بعض نوجوان اسے اچھی نظر سے بھی نہیں دیکھتے کیونکہ ملکان سے کچھ لوگ نالاں ہیں۔ نوجوان اب سمجھتے ہیں کہ ملکان سرکاری حکام کے ساتھ ماضی میں مل کر ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔‘